” پب جی ”دنیا کی مشہور ترین گیمز سے ہے۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہوجس نے” پب جی” کے متعلق نہ سنا ہو۔ بچے ہوں یا بڑے سب” پب جی ”کھیلنے کے شوقین ہیں ۔
”پب جی ” کو کس نے بنایا ۔۔؟
وہ کہتے ہیں نا کہ ایک چھوٹا سا آیڈیا آپ کی زندگی تبدیل کر سکتا ہے۔ اسی طرح ”پب جی” نے بھی کسی کی زندگی تبدیل کر دی۔
یہ کہانی ہے برینڈن گرین کی۔ برینڈن ہی وہ آدمی جس نے ”پنب جی” کو بنایا ۔ایک وقت تھا کہ یہ آدمی بیروزگار تھا۔ اس کا بینک اکاونٹ بالکل خالی تھا ۔لیکن پھر ”پب جی” نے اس کی زندگی راتوں رات تبدیل کر کے رکھ دیا۔ برینڈن کی کہانی انتہائی موٹیویشنل ہیں۔ ۔
برینڈن آئرلینڈ میں پیدا ہوا تھا ۔اور اپنے کریئر کی شروعات میں یہ ایک فوٹو گرافراور ڈی جے تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک پارٹ ٹائم ویب ڈیزائنر بھی تھا ۔یعنی برینڈن اپنی زندگی ا یسے ہی گزار رہا تھا ۔اور کبھی کبھی یہ ڈی جے بھی بن جاتا تھا۔ برینڈن کی لائف میں کوئی خاص مقصد نہیں تھا۔ اس کو فوٹو گرافی کا بہت شوق تھا ۔اور اسی لیے اس نے برازیل جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ہیاں بھی مشکلات کم نہ ہوئیں۔ اش کی زندگی مشکلات میں گھری ہوئی تھی۔ لیکن یہی مشکلات ہماری زندگی میں نئے راستے کھول رہی ہوتی ہیں۔ اور یہی کچھ برینڈن کے ساتھ ہوا ۔
2013 میں برینڈن برازیل میں تھا اور یہاں پھنس چکا تھا۔ اس کے ؛اس پیسے ختم ہوچکے تھے ۔اور یہ بہت مشکل سے اپنا گزر بسر کر رہا تھا۔ برینڈن کے مطابق اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ یہ جہاز کی ٹکٹ لے۔ اور واپس آئرلینڈ چلا جائے ۔اسی لئے اس نے ٹکٹ خریدنے ک کے لیے پیسے جمع کرنا شروع کر دیئے ۔اس نے اپنے خرچے کم کر لئے۔ اور اپنا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں ہی گزارتا تھا تاکہ اس سے زیادہ پیسے خرچ نہ ہو ں۔
یہی وہ وقت تھا جب اس نے ویڈیو گیمز کھیلنا شروع کر دیں تاکہ اس کا وقت آسانی سے بسر ہو جائے۔سکیں یہیں سے برینڈن کو آن لائن ویڈیو گیمز کے بارے میں پتہ چلا ۔ برینڈن کوئی گیم ڈیولیپر نہیں تھا۔ لیکن اس کا انٹر سٹ اس طرف بڑھتا چلا گیا ۔
2014 میں پیسے جمع کرکے اس نے جہاز کی ٹکٹ خرید ی۔ اور آئرلینڈ واپس آگیا۔ لیکن مشکلات کا سلسلہ یہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔برینڈن کے پاس پیسے نہ ہونے کے برابر تھے ۔اس کا بینک اکاؤنٹ بالکل خالی تھا۔ اور اس کو کوئی کام بھی نہیں مل رہا تھا ؛یہاں تک کہ یہ ویلفیئر کے پیسوں پر گزارہ کرنے پر مجبور ہوگیا ۔یعنی اس کو آئرلینڈ کی حکومت زندگی گزارنے کے لئے تھوڑے سے پیسے دے دیتی تھی ۔کیونکہ یہ بے روزگار تھا۔ برینڈن کے لئے اس کی زندگی ختم ہو چکی تھی۔ یہ تقریبا چالیس سال کا ہو گیا تھا ۔اور اس کی زندگی میں ناکامیوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اس کی طلاق بھی ہوچکی تھی۔ اور یہ اب اپنے والدین کے گھر میں رہتا تھا ۔اور اس کے والدین اس کے لیے سخت پریشان رہتے تھے۔ 
برینڈن کے پاس کرنے کو کچھ اور نہیں تھا تو اس نے فری گیمنگ موڈز بنانے شروع کر دیئے ۔ برینڈن کو ایک جاپانی فلم بہت پسند تھی۔اس فلم میں بھی دکھایا گیا تھا ۔کہ کچھ لوگ کیسے ایک جزیرے پر خود کو زونبی سے بچاتے ہیں۔ یہ آئیڈیا برینڈن کو بہت پسند آیا۔ برینڈن نے ایک آن لائن گیم ”آرما ٹو” میں اسی فلم کی کہانی سے متاثر ہو کے ایک موڈ بنا لیا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ گیمز کو ڈیزائن اور اس کی کوڈنگ بھی سیکھنا شروع ہوگیا ۔
برینڈن کی قسمت اچھی تھی کہ ”آرما ٹو”میں جو اس نے موڈ بنایا تھا ۔وہ کافی مشہور ہو گیا ۔اور برینڈن کو ”سونی آن لائن انٹرٹینمنٹ” نامی گیم کمپنی کی طرف سے کال آئی ۔جس میں انہوں نے برینڈن کو ایک کنسلٹنٹ کے طور پرہائر کرنے کی آفر کی ۔ برینڈن بہت خوش تھا۔ یہ فورا ویلفیئر آفس گیا۔اور اس نے ان کو کہا کہ اب اسے ویلفیئر کے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے ۔سونی کے ساتھ برینڈن نے دو سال تک کام کیا ۔
2016 میں برینڈن کو ایک ساؤتھ کورین کمپنی ”بلیو ہول” نے رابطہ کیا۔ اور اس کو اپنی ایک بیٹل رویال گیم بنانے کی پیشکش کی ۔اور یوں برینڈن ان کے لیے ساوتھ کوریا چلا گیا ۔
”پب جی ”کا مطلب” پلیر اننون بیٹل فیلڈ ” ہوتا ہے ۔”پلیئر ان نون ”دراصل برنڈن کا ہی نام تھا ۔جو یہ آن لائن گیم کھیلتے ہوئے یوز کرتا تھا۔ اور اس نے اسی نام پر ”پب جی”کا نام رکھ لیا ۔اور یہیں سے برینڈن نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔
دسمبر 2017 میں ”پب جی”کو مائیکروسافٹ ونڈوز کے لئے لانچ کیاگیا۔ اور 2018 میں پلے سٹیشن ایکس باکس کے لیے ۔
”پب جی” کی سیلز اتنی تیزی سے بڑھنے لگی کہ برینڈن بھی حیران رہ گیا ۔ڈیڑھ سال میں اس گیم کی پانچ کروڑ کا پیز بک چکی تھی ۔اور موبائل پر اس کو 200 ملین سے زیادہ لوگ ڈاونلوڈ کر چکے تھے۔
برینڈن کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو گئی ۔آج برینڈن کتنا دولت مند ہے، یہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے ۔
کبھی ویلفیئر کے پیسوں پر انتہائی غربت میں جینے والے برینڈن کی آج نیٹ ور تھ 200 ملین ڈالر ز ہے۔ یعنی 20 کروڑ ڈالرز ۔جو کہ 32 سو کروڑ روپے بنتے ہیں۔ آج ٹنڈن ایمسٹڈیم میں رہتا ہے ۔اور 43 سال کا ہو چکا ہے ۔لیکن اتنا پیسہ آنے کے بعد بھی یہ ابھی بھی سمپل لائف گزارتا ہے ۔
بزنس انسائڈر کو ایک انٹرویو میں برانڈن نے بتایا تھا کہ اس نے جو کچھ بھی کمایا ہے ،وہ اپنے سے زیادہ اپنی بیٹی پر خرچ کرنا چاہتا ہے۔
برینڈن کی زندگی کی کہانی سے ایک چیز تو واضح ہے کے آپکی عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک چھوٹا سا آئیڈیا اور بہت ساری محنت آپکی زندگی کسی وقت بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ برینڈن اسی کی ایک مثال ہے۔