انسان کو اپنی زندگی کے تمام معاملات کا ادراک حواس خمسہ سے ہوتا ہے۔ لیکن حواس خمسہ کے علاوہ ایک حس ایسی بھی ہے جس کی وجہ سے انسان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور حادثات ظاہر ہوجاتے ہیں ہیں مثلا اگر آپ کسی سے گفتگو کر رہے ہو تو آپ کو گفتگو کے دوران ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اگلے لمحے یہ شخص کیا بات کرنے والا ہے ہے یا اگر آپ کہیں جا رہے ہوں یا کوئی کام کر رہے ہوں تو آپ کے دماغ کو محسوس ہو جاتا ہے کہ عين اسی وقت کچھ برا یا اچھا ہونے والا ہے ۔
اس کے علاوہ اسکی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جب ہمیں کوئی سینکڑوں میل دور بیٹھے یاد کرتا ہے تو ہميں چھينک آنا شروع ہو جاتی ہے يا جب ہم کسی کو یاد کر رہے ہوں تو اچانک ان کی کال یا میسج آجاتا ہے ان تمام عوامل کا تعلق چھٹی حس سے ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا چھٹی حس انسان کو مستقبل میں اچھے برے واقعات اور حادثات سے خبردار ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے یا انسان نے صرف اتفاقات کو چھٹی حس کا نام دیا ہے ۔
چھٹی حس آج تک ماہرين کی نگاہوں میں متنازعہ رہی ہے۔کچھ کے نزدیک ایمان و آگہی کے مختلف نظریوں میں چھٹی حس بھی شامل ہے ہے جبکہ کچھ اسے لاشعوری طور پر دماغ میں جانے والی معلومات کا ہی ایک دوسرا نام دیتے ہيں ۔
درحقيقت ہمارے دماغ سے شعائيں جنہيں ہم مائينڈ ويوز يعنی دماغی لہريں کہتے ہيں اکثر خارج ہوتی رہتی ہے اور انہی لہروں سے دنیا کے لوگ اپنوں سے بندھے ہوئے ہوتے ہيں مثلا بيٹا جو ماں کے جسم کا ہی حصہ ہے مادی طور پر ماں سے جڑا ہوا نہیں ہوتا لیکن جذباتی اور دماغی طور پر ذہنی لہروں کے ذریعے ماں سے جڑا ہوتا ہے اور ان دونوں میں مادی تعلق موجود ہوتا ہے اسی لئے اگر ماں کوکسی قسم کی تکلیف ہوتی ہے تو بیٹے کا دل کی پسيج جاتا ہے اور اگر بیٹے کو کسی قسم کی تکلیف پہنچے تو ماں ساری رات کانٹوں کی سیج پر لیٹی رہتی ہے يہ تعلق صرف ماں بيٹے يا صرف دوسرے خونی رشتوں تک ہی محدود نہیں ہوتے بلکہ انتہا درجہ کی چاہت اور محبت ہو تو بھی آپس میں ایک مادی رشتہ قائم ہو جاتا ہے ہے بعض اوقات یہ نظر نہ آنے والی دماغی لہریں ایک ذہن سے نکل کر بہت سے لوگوں کو پابند بھی کرسکتی ہیں ہیں انہیں مادی طور پر کھینچ بھی سکتی ہیں اور کسی کام کے لیے منوا بھی سکتی ہیں ۔
اگر کسی قوم کا حقیقی لیڈر اگر واقعی قائد اعظم کی طرح مضبوط ہو تو پوری قوم اس کے پیچھے کھینچی چلی آتی ہے ہے یہ کھینچا چلے آ نا اصل میں ایک مادی عمل ہے جو ذہنی لہروں کے لئے عمل میں آتا ہے۔ دماغ کی يہ طاقت مادہ ميں تبديل ہوتی ہے اور باقاعدہ ہزاروں لاکھوں میل سفر کرتی ہوئی اس شخص کے دماغ تک رساہی حاصل کرتی ہے جسے آپ یاد کر رہے ہو تے ہيں۔
يہ طاقت انسان سے دوسرے انسان تک، ایک معاشر ے سے دوسرے معاشرے تک ، ايک تہذیب سے دوسری تہذیب تک سفر کرتی ہے۔
اور انسان روحانی طور پر جتنا مضبوط ہوگا اس کی طاقت بڑھتی چلی جائے گی۔ اگر کوئی قوم ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کے ليے بہت ضروری ہے کہ اسکے زيادہ سے زيادہ لوگ مايوسی کی بجائے کاميابی کا سوچا کريں