شاہ محمود قریشی کے دورے کو کوئی عام دورہ نہ سمجھیں۔جو لوگ اپنے ذہنوں میں قریشی کےاستعفی کی خواہش لیے بیٹھے ہیں۔ وہ اب اپنے ذہن سے پرانی اور دقیانوسی سیاست اور صحافت نکال لیں ۔اب صرف پرفارمنس کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے ۔دورہ مکمل کر چکے ہیں ۔کون کب کہاں کس کو ڈکٹیشن دے رہا ہے ،اور کہاں سے ڈکٹیشن دی جا رہی ہے۔ آنے والے وقت میں سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ کیا واقعی مسلم دنیا کا ایک نیا اتحاد بننے جارہا ہے ؟ کیا پاکستان سعودی عرب نے امریکہ کو گڈ بائے کہہ دیا ہے ؟ چین کی امریکہ کی سب سے بڑے اتحادی ملک میں سعودی عرب کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ کیاسعودی عرب کو بھی چین امریکہ سے دور کرنے جا رہا ہے؟ امریکہ کی عرب ممالک میں چودھراہٹ کو بھی چین خطرے میں ڈالنے لگا ہے؟ بھارت کو تنہا کرنے کے بعد کیا امریکہ کو بھی چین مشرق وسطیٰ میں تنہا کرنے جارہا ہے؟ گیم بڑی زبردست ہے ۔ پاکستان نے چین کے سے مل کر بازی پلٹ کر رکھ دی ہے۔ امریکہ اسرائیل اور بھارت دیکھتے ہی رہ گئے ہیں۔ اب مسلم اتحاد انکی مل کر سے اینٹ بجانے جا رہے ہیں ۔چین نے سعودی عرب کو اہم پیغام بھجوادیا ۔سعودی عرب سے متعلق بیان دے دیا ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بگاڑ کے بارے میں قیاسآرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ہم حمایتی اور ضرورت ہیں دونوں ممالک میں دراڑیں ڈالنے والے خوش فہمی میں نہ رہیں نہ تو پاکستان سعودی عرب کا ساتھ چھوڑنے والا ہے۔ اور نہ ہی سعھوی عرب پاکستان کا۔سعودی عرب نیوز کے مطابق وزیر خارجہ نے ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات تھے، اور ہیں۔ میرے خیال میں کوئی ہمارے تعلقات کی گہرائی کو نہیں ناپ سکتا ۔سعودی عرب مشرق وسطی میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی ہے ۔ اس وقت بڑی گیم کے مطابق چین سعودی عرب سے امریکہ کونکالنا چاہتا ہے۔ اس کو سنتے ہیں امریکی ایوانوں میں ہلچل سی مچ گئی تھی۔ سعودی عرب اور چین کے درمیان جوہری تعاون کے معاملے پر چینی وزارت خارجہ نے امریکہ واسرائیلی خدشات کو غیر ضروری قرار دے دیا ۔ان کا کہنا ہے کہ چین اور سعودی عرب کے درمیان ایک جامع اسٹریٹجک شراکت داری ہے ۔ اور حالیہ برسوں میں مختلف شعبوں میں نتیجہ خیز تعاون کے نتائج کے ساتھ باہمی تعلقات میں تیزی آئی ہے ۔ ترجمان چینی وزارت خارجہ نے معمول کی بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ چین کا سعودی عرب سے توانائی کے شعبے میں بھی دو طرفہ مخصوص تعاون ہے ۔اور چین ذمہ دارانہ رویہ کے ساتھ دنیا میں جوہری توانائی کے پرامن استعمال کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیے۔ پہلے پہل تو چین پاکستان کے ساتھ مل کر بھارت کو خطے میں تنہا کیا۔ آپ چین اور پاکستان مل کر امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں تنہا کرنے کا پلان بنا چکے ہیں ۔سعودی عرب تیل میں خود کفیل ہے۔اس کا انحصار صرف تیل پر ہی ہے۔ سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان وژن 20-30 پر گامزن ہیں۔ جس کے لئے وہ سعودی عرب کی ترقی کے لیے نت نئے راستے دیکھ رہے ہیں۔ سعودی عرب میں جتنی آزای آج ہے۔ اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی۔ چین سعودی عرب کو پاک چائنہ سی پیک میں شامل کرنے جارہا ہے ۔جس کے بعد یقینی طورپرسعودی عرب کا جھکاؤ بھی پاکستان چین کی طرف بڑھ جائے گا ۔اور امریکہ کا سعودی عرب پر اثر و رسوخ آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گا ۔ ایک نیا گیم چینجر منصوبہ بن جائے گا اور یقین کریں اگر یہ اتحاد بننے میں کامیاب ہوگیا۔ تو پھر جس طرح بھارت سعودی عرب کو تیل کی فروخت کو لے کر بلیک میل کرتا ہے وہ بلیک میلنگ بھی ختم ہوجائے گی ۔بھارت کی بلیک میلنگ کی وجہ سے سعودی عرب نے آج تک کشمیر ایشو پر کبھی زبان نہیں کھولی ۔پاکستان اور چین مل کر سعودی عرب کو امریکہ اور بھارت کے شکنجے میں سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے ۔تو پھر کشمیر پر آزادانہ فیصلہ کرنے سے سعودی عرب کو بھی کوئی نہیں روک سکے گا۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب پر بھی اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بہت پریشر ہے۔ اسرائیل اور امریکہ دونوں مل کر سعودی عرب کو ہر طرح سے بلیک میل کر رہے ہیں ۔کبھی اس کو جمال خاشقجی قتل کیس میں پھنسا دیتے ہیں ۔اور کبھی آل سعود خاندان میں سے بغاوت شروع کروا دیتے ہیں۔ لیکن سعودی ولی عہد نے انتہائی دانشمندی سے ان تمام معاملات کو ٹیک اوورکر رہے ہیں ۔ گزشتہ ہفتے شاہ محمود قریشی کے بیان کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تلخیاں عروج پر پہنچ گئی تھی۔ لیکن پاکستان کی عسکری قیادت کے دور میں پاکستان نے اس معاملے کو فوری طور پر کنٹرول کر لیا تھا ۔اور کیا گیا کہ پاکستان کے بغیر سعودی عرب بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اور یہ حقیقت بھی ہے سعودی عرب کو اگر اس وقت پاکستان سے کوئی تکلیف ہے تو وہ صرف عرب ممالک میں ڈوبتی شاہی خاندان کی چودھراہٹ ہی ہے۔ اس وقت پاکستان کا جھکاؤ عرب ممالک سے ہٹ کر چین اور ترکی کی طرف ہو چکا ہے ۔اور یہ جھکاؤ اس وقت شروع ہوا جب کشمیر ایشو کو لے کر عمران خان نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ آئی سی اجلاس بلاکر بھارت کی اس معاملے میں کھل کر مخالفت کی جائے۔ لیکن سعودی عرب نے آج تک ایسا نہیں کیا ۔جس کے بعد عمران خان نے اپنا راستہ بدلا ۔اور نئے اسلامی بلاک کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ۔ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب پاکستان سے خفا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کےترکی اور چین کے ساتھ تعلقات زیادہ بہتر ہو ں۔سعودی عرب پر مسلم ممالک پر سعودی عرب کی حکمرانی رہے ۔لیکن سعودی عرب جانتا ہے کہ وہ پاکستان کی حمایت کے بغیر مشرق وسطیٰ میں حکمرانی نہیں کر سکتا ۔اس لئے اب بات ہے اچھی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ جن میں دورہ چین سے قبل سعودی عرب کو سخت پیغام دیا تھا ۔آج میں بیٹھ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کی ضرورت ہے ۔اس میں کوئی خرابی نہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایک سال میں مقبوضہ کشمیر کے حالات میں تبدیلی آئی ہے۔ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تیزی سے بات بگڑ گئی ہے۔ آج بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں ہیں ۔سرکار کی کشمیر پالیسی سے کشمیری نالاں ہیں۔ حالات پہلے سے زیادہ خراب ہیں۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کے تعلقات پر کوئی ناراضگی نہیں ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر دو ٹوک موقف اپنایا ہے ۔واضح بیان دے دیا ہے جو پاکستان کے موقف کے عین مطابق ہے ۔