جمہوریت میں کتنی ہی کامیا ں کیوں نہ ہو ،لیکن اس جمہوریت میں اگر عدلیہ اور میڈیا آزاد نہ ہو تو جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال آج کل اسرائیل میں ہے ۔ بین جامین متن یا ہو 2009 سے اسرائیل کے وزیراعظم ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کیے، لیکن آزاد میڈیا آڑے آیا۔ میڈیا نے انکی اور انکی اہلیہ کی بد عنوانی کو بے نقاب کیا۔اور یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ نیتن یاہو کے خلاف مقدمہ قائم کرکے عدالت سے سزا دی جائے۔ اس مشکل میں امریکی صدر ٹرمپ ان کی مدد کو آئے ۔؛انہوں نے پچھلے سال مڈل ایسٹ کے نام پر نیتن یاہو کو سہارا دینا شروع کیا جس کے تحت یو اے ای نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اور اس کے بعد اب بحرین نے ۔ بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی اپنی کرسی پر گرفت اور مضبوط ہو رہی ہے۔ جبکہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا پلان ہے کہ اس سال کے آخر تک پاکستان اور سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلے۔ اگر ایسا ہو جائے تو نیتن یاہو اسرائیل میں ایک ہیرو کا درجہ پا لیں گے۔۔ اور ان کے خلاف مالی بدعنوانی کے مقدمات کا آگے بڑھنا بہت مشکل ہو جائے گا ۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل بھی کوشش میں ہے کہ پاکستان اسے تسلیم کرلے۔۔ لیکن نیتن یاہو کی کوششوں کا پس منظر بالکل مختلف ہے نتن یاہو اپنی کرسی بچانے کے لیے تمام مسلم ممالک کو استعمال کریں گے ہیں۔ تاکہ ان کی عوام کو ایک ہیرو سمجھیں ۔جبکہ وزیراعظم عمران خان کا ساتھ موقف ہے کہ جب تک فلسطین کو ان کا حق نہیں مل جاتا۔۔ ان کی سرزمین ان کا بیت المقدس نہیں مل جاتا۔ تب تک ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔