جيسے ہی رياست پاکستان نے عمران خان کو کہا کہ آپ مہنگائی کو کنٹرول کريں۔ اس کا ڈائريکٹلی لنک سکيورٹی کے ساتھ جڑا ہے۔ اگر يہ معاملات ٹھيک نہيں ہوتے تو حکومت اور رياست دونوں کے ليے معاملہ ٹھيک نہيں ہے۔
اس کے بعد عمران خان نے پوری کوشش کی ہے کہ وہ مہنگائی پر کنٹرول کريں۔
اب اس تمام صورت حال ميں عمران خان نے ايسے لوگوں کو جو ان کے مخالف ہيں۔ انہوں نے ان کے اہم ترين ايکسپرٹ سے بات کرنا شروع کی۔ اور آپ يہ جان کر حيران ہونگے کہ عمران خان کو جو رپورٹس آزاد ذرائع سے موصول ہو رہی ہيں۔چاہے ان کی مخالف پارٹيوں کی جانب سے ہوں يا رياست نے جو ايکسپرٹ ان کو ديے ہيں کہ آپ ان سے بات کريں کہ مسئلہ کيسے حل ہونا ہے مہنگائی کا۔
عمران خان کے اعداوشمار ديکھ کر حوش اڑ گئے ہيں کيونکہ جب سے وہ وزير اعظم بنے ہيں نہ تو وہ اب ٹويٹر استعمال خود کرتے ہيں۔ نہ وہ اپنا فيسبک استعمال کرتے ہيں فيسبک پيج پر بھی ان کے بہت سے ايڈمن ہيں۔
ان تمام صورت حال میں وہ عوام سے کٹ آف ہو چکے ہيں۔ وہ ميڈيا کو ديکھتے ہيں اور ميڈيا بھی وہ اپنے لوگوں کا ديکھنا بند کر چکے ہيں۔
اس تمام صورت حال کے بعد ان کے پاس جو اعداوشمار پہنچے تو انہوں نے جو باتيں کہيں وہ حيران کن ہيں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ميری معاشی ٹيم نے بری طرح دھوکہ ديا ہے۔اور مجھے اندھيرے ميں رکھا اور اب مجھے اندازہ او رہا ہے کہ مہنگائی کا جن کس ليول پر عام لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔
يہ عمران خان جو کبھی اليکشن سے پہلے آپ کو نظر آتے تھے۔ان کا اب وہی روپ آپ کو نظر آئے گا۔
اب صورت حال اتنی بری طرح خراب ہے کہ عمران خان ان لوگوں سے تنگ آچکے ہيں کہ انہوں نے مجھے دھوکے ميں رکھا۔اب اگر عمران خان بڑے فیصلے ليں گے تو يہ وزير ، مشير خزانہ اور گورنر اپنا بريف کيس اٹھائيں گے اور چلے جايں گے۔
پيچھے اب بہت حالات خراب ہيں۔ جہانگير ترين کی چھ شوگر مليں ہيں۔20 پرسنٹ ان کا شيئر ہے۔اگر انہی سے حساب کتاب شروع کيا جائے کہ چینی کی قیمتيں کيسے بڑھيں۔؟تو کل ملا کے بہت بڑی کچھڑی بن چکی ہے جو عماان خان کو بہت بڑے قدم اٹھانے ہو نگے۔ ليکن اگر اب بھی عمران خان مہنگائی کنٹرول نہ کر پائے تو اب پھر رياست ميں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
لہذا اگر عمران خان کو ادراک ہو گيا ہے تو بہت اچھی بات ہے اب وہ فيصلے کريں گے اگر نظام جات ہے تو گرا ديں اور عوام ميں آجائيں۔