کرہ عرض کے فطری توازن میں انسانی مداخلت جدید ٹیکنالوجی کے نام پر دوسرے سیاروں کوتو تسخیر کر رہی ہے لیکن اس کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اتنے مہینوں سے آسٹریلیا کے جنگلوں میں لگی آگ پر قابو پانے سے قاصر ہے حتی کہ جہاز ہیلی کاپٹرز آگ بجھانے والے تمام جدید آلات اور کیمیکلز کے ہوتے ہوئے بھی جدیدیت کا مارا انسان بے بسی کا شکار ہے
اور قدرت کی طرف اپنی نظریں جمائے منتظر ہے کہ کب بادلوں سے بارش برسے اور یہ آگ ٹھنڈی ہو۔ اس ساسلے ميں اگرچہ مسلمانوں نے نماز استسقاء ادا کرکے اپنا کردار نبھایا اور قدرت نے بارش کا سلسلہ بھی شروع کردیا لیکن اس قدر ترقی یافتہ دور میں ہر ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود زندہ جلتے ہوئے معصوم جانور اور خوبصورت سرسبز درختوں کا تباہ و برباد ہونا کافی نہیں تھا کہ وہ آسٹریلیا میں دس ہزار سے زائد ہونٹوں کو تلف کرنے کی پانچ روزہ مہم شروع کر دی گئی ہے ہے جہاں ايک طرف جانوروں اور پرندوں کو بچانے کے ليے جنگل کی آگ کو بجھانے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو وہیں دوسری طرف اونٹ جیسے معصوم جانوروں کی اتنی بڑی تعداد کو قتل کرنا یقیناًانسانیت سوز کام ہے جبکہ اس عمل کی وجہ آسڑيليا میں آتشزدگی سے متاثرہ علاقوں کو پانی کی قلت سے بچانا بتائی گئی ہے آسٹریلوی ماہرین کا کہنا ہے کیونکہ یہ اونٹ پانی کے محدود ذخیرے کے لیے خطرہ بن چکے تھے اور ان کے بڑے ہوٹل آبادیوں میں پھیل گئے ہیں جو کہ نہ صرف پانی اور اجزاء کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ یہ بے مہار جانور ٹریفک کی روانی بھی متاثر کر رہے ہیں کو تلف کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے ہے لیکن اظہر دیکھا جائے تو اس مقصد کے لیے بھی جانوروں کی اتنی بڑی تعداد کو تلف کرنا ظلم کے مترادف ہے حالانکہ جدیدیت کا راگ الاپنے والے یہ لوگ اگر انسانیت کے معیار کو بھی ترقی یافتہ بنا لیتے تو اس عمل کی نوبت نہ آتی بلکہ اپنے ایسی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر کوئی متبادل راستہ نکالا جاسکتا تھا جن میں سے ایک ہے کسی دوسرے آرامدہ علاقوں میں بھیج دینا شامل ہے۔
لیکن آسٹریلوی نشریاتی ادارے کے مطابق اس مہم میں اونٹوں کو آبادی سے دور لے جا کر ہلاک کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے ہے اور مرنے کے بعد ان کی باقیات کو جلا دیا جائے گا اور اس عمل کے لیے متعلقہ اداروں کو ہیلی کاپٹرز کی مدد بھی فراہم کی گئی ہے۔
اسلام کی رو سے اس موضوع پر روشنی ڈالیں تو ہمیں کچھ اس طرح کے حدیث مبارک سننے کو ملتی ہیں جیسے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو انسان بھی کسی چڑیا یا اس سے بڑھ کر بھی کسی چھوٹی چیز کو ناحق قتل کرے گا تو اللہ تعالی اس کے بارے میں اس سے سوال کرے گا گا عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حق کیا ہے فرمایا کہ اسے ذبح کرکے کھالے اور اس طرح نہ کرے اس کے سر کو کاٹ دے اور اسے پھینک دے ۔تو اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا عمل آسٹریلیا میں اونٹوں کے ساتھ ہونے جارہا ہے وہ ایک غير اسلامی اور ظالمانہ عمل ہے جبکہ جانوروں کے ساتھ رحمت کا عین تقاضہ یہی ہے کہ ان کے ساتھ رحمدلانہ سلوک کرکے کوئی متبادل راستہ تلاش کیا جائے نہ کہ آگ بجھانے کی کوششوں میں ناکامی کا غصہ بیچارے جانوروں پر نکالا جائے۔
اور ان تمام باتوں سے قطع نظر آسٹریلیا اور اس جیسے دیگر ممالک کو سوچنا ہوگا کہ نام نہاد ترقی کے نام پر زمین کے وسائل سے کھلواڑ کو بند کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے یہ جدید وسائل کی مہربانیاں ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث جنگلوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں اس سے سوچ بچار کی ضرورت ہے کیونکہ آنے والے وقت میں آفات مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں یہ پوری دنیا کے لئے فیصلہ کن وقت ہے اگر آج سنجیدگی کامظاہرہ کرلیا گیا تو ہم خود بھی بچ سکتے ہیں اور آنے والوں کو بھی محفوظ بنا سکتے ہیں ۔
آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ اللہ جانوروں کو انسانوں کے غلط فیصلوں کا شکار ہونے سے محفوظ رکھے اور ہم انسانوں کو ایسے فیصلوں کی توفیق دے جو معصوم جانوروں کی زندگیاں بچائے رکھے ۔آمين