پولينڈ کی سڑکوں پر ایک بچہ چلتا ہوا نظر آتا ہے اس بارہ تیرہ سال کے دیکھنے والے بچے کا نام تو معاز ہے لیکن تومعازجیسا دکھتا ہے وہ اصل میں نہیں ہے تو معاز دراصل ایک 25 سال کا آدمی ہے جو ایک بچے کے جسم میں موجود ہے تو معاز سے ایک بہت ہی منفرد کنڈیشن سے گزر رہا ہے جس کو فیبری ڈیزیز کہتے ہی
جب تومعازسات سال کا تھا تو یہ ایک نارمل سے دیکھنے والا بچہ تھا یہ تھوڑا سا کمزور ضرور تھا لیکن اس کو یہ نہیں پتا تھا کہ اس کے ساتھ آگے کیا ہونے جارہا ہے ایک دن تومعازکے پیٹ میں شدید درد اٹھا اس کو یہ درد ہر کچھ دن کے بعد ہوجاتا تھا پیٹ کا یہ درد آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ پاؤں میں بھی پھیلنا شروع ہوگیا تو معازکے پیرنٹس نے جب اس کا چیک اپ کروایا تو پتہ چلا کہ تو معاذ فییزی نامی ایک بیماری سے گزر رہا ہے یہ ایسی بیماری ہے جو دنیا میں صرف چند سو لوگوں کو ہی ہوچکی ہے لیکن بات صرف جسم کے درد کی ختم نہیں ہوئی وقت گزرتا گیا اور جیسے جیسے تو معاز بڑا ہوتا گیا یہ بات صاف ہونے لگیں کہ تو معاز کا جسم ابھی بھی ایک بچے کی طرح ہی رہ گیا تھا اس کی فیملی کو بھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں یہ آدمی ہر وقت اپنے کمرے میں بیٹھ کر اکیلا وقت گزرتا رہتا تھا کیونکہ اس کو اس کی فیملی کی کوئی سپورٹ حاصل نہیں تھی اس کے مطابق اس کی اس کنڈیشن نے اس کی فیملی لائف بھی تباہ کردی تھی یہاں تک کہ تومعاز 25 سال کا ہو گیا لیکن یہ بالکل ایک بارہ سال کے بچے کی طرح دیکھتا ہے اس کے علاوہ اس کے جسم میں 24گھنٹے کہیں نہ کہیں درد ہوتا رہتا تھا اس کی وجہ سے تو معازسوبھی نہیں سکتا تھا تو معازما کو جب بھی آئی ڈی دکھانی پڑتی تھی تو اس کو بار بار یقین دلانا پڑتا تھا کہ یہ بارہ یا تیرہ سال کا نہیں ہے اور اس کی آئی ڈی فیک نہیں ہے خاص طور پر اس کو کئی دفعہ رات میں پولیس روک لیتی تھی اور اس سے سوال کرتی تھی کہ یہ بچہ اتنی رات کو اکیلا کہا جارہا ہے اور پھر اس کو اپنی کہانی پولیس کو سمجھا نہیں پڑتی تھی تو تومعاز کا صرف قد چھوٹا نہیں رہ گیا جیسا کہ بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جیسے کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مکمل طور پر ایک بچہ لگتا ہے اور یہی بات اس کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے اس کے مطابق دل اور دماغ سے خود کو ایک 25 سال کا آدمی ہی سمجھتا ہے لیکن دوسرے اسکو بچے کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں اس کا کوئی دوست نہیں ہے اور اس کی فیملی بھی اس سے دور ہو گئی ہے اس سے شادی کرنا بھی بے حد مشکل ہےکیونکہ یہ ایک بارہ سال کے بچے کی طرح لگتا ہے لیکن ہر دن صرف یہ ا حساس اس آدمی کے لیے مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ تو معاز کو پین ہوتا رہتا ہے تو معاز سو بھی نہیں سکتا اس کو ہر دن پین کلرز لینے پڑتے ہیں اس کے علاوہ یہ بيڈ سے اٹھ بھی نہیں سکتا تو معاز کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ آدمی کوئی سالٹ چیز بھی ٹھیک سے نہیں کھا سکتا اس کے جسم میں نیوٹرینٹس اسکے خون کے ذریعے شامل کیے جاتے ہیں لیکن اس کے لیے مسائل یہاں بھی ختم نہیں ہوتے تو معازو کوروزانہ دوائيں کھانی پڑتی ہے جن کی قیمت ایک سال میں 22 ہزار ڈالرز تک ہوتی ہے یعنی تقریبا 35 لاکھ روپے ہر سال۔۔ تو معازدرد کی وجہ سے کوئی کام نہیں کر سکتا اور اس کی فیملی ویسے ہی سے دور ہو چکی ہے پولینڈ کی حکومت کی طرف سے بس کچھ پیسے مل جاتے ہیں لیکن یہاں اس کی مدد اسی کمپنی نے کی جویہ دوائیاں بنا تی ہے یہ کمپنی تو معاز کویہ دوائیاں بالکل مفت دے دیتی ہے پچیس سالہ تومعاز کافی پریشانیوں میں کھرا ہوا ہے دنیا اس کو ایک ایسے آدمی کے نام سے جانتی ہے جو ایک بچے کے جسم میں قید ہے لیکن پھر بھی یہ بلاشبہ ایک بہادر انسان ہے جو اپنے حالات سے انتہائی ہمت سے لڑ رہا ہے ہم سب لوگ اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہوجاتے ہیں لیکن ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ تو معاز اور اس جیسے کئی لوگ بيماری کے باوجود بہادری سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں