یہودی کے اللہ کی ذات کے بارے میں کیئے گئے 3 سوالات اور 11 سالہ بچے کے جوابات

دور جدید کے فتنوں میں سے ایک فتنہ خدا کے وجود سے انکار ہے۔آج کے سائنسیی دور میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اللہ تعالی کے وجود سے مکمل طور پر منکر ہیں اور ہر بات کو عقلی دلائل پر پرکھتے ہیں۔ اور اس بات کا دعوہ کرتے ہیں کہ اس کائنات کو تخلیق کرنے والا اور اس کو چلانے والا کوئی نہیں ہے۔ لیکن آپ کو بتا ئیں کہ یہ فتنہ کوئی نیا نہیں بلکہ اس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کے اسلامی تاریخ۔
اس آرٹیکل میں ہم اس شخص کی بات کریں گے جس نے مسلمانوں کے سامنے چند سوالات رکھے کہ اللہ سے پہلے کیا تھا اور اللہ کب پیدا ہوئے۔ لیکن اس وقت جب بڑے بڑے علمہ جب کشمکش میں مبتلا تھے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے صرف گیارہ سال کے بچے کے ذریعے اس شخص کو کیسے ذلیل و رسوا کرکے رکھ دیا آپ کو بتائیں گے ۔
ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ آنے والے زمانے میں یہ فتنہ کبھی نہ کبھی ضرور سر اٹھائے گا۔چناچہ صحہیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”ہمیشہ ہی لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے حتی کہ یہ کہا جائے گا ۔یہ فلاں چیز اللہ تعالی نے پیدا فرمائی ہے تو اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ۔جو شخص ایسا سوال پا ئے وہ یہ کہے کہ میں اللہ تعالی پر ایمان لایا۔”
صدیوں پہلے کا واقعہ ہے کہ شیطان ایسے ہی ملحد شخص کا روپ دھار کے بغداد میں وارد ہوا۔اور ایسے ہی کچھ سوالات اٹھائے۔
اس نے اس بازار میں آکر صدائیں بلند کرنا شروع کر دی ۔کہ اے مسلمانوں تہھارا ایمان ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اور ہر علم کا سر چشمہ اسی کی ذات ہے۔ تو کیا اس نے اس سوال کا جواب پیدا فرمایا ہے یا تمھیں اپنے علم سے یہ جواب نوازا ہے ۔کہ خود اللہ تعالی سے پہلے کیا تھا۔ اور اللہ تعالی کو کس نے پیدا فرمایا ۔وہ ملحد شخص اسی ایل سوال پہ نہ رکا بلکہ مسلمانوں کے ایمان کو آزمانے کے لیئے اس نے کئی سوالات کیئے۔
اس نے کہا ہے آؤ مسلمانوں مجھے بتائو۔تمھارا ایمان ہے کہ تمہارا رب ہر چیز کو دیکھتا ہے تو مجھے بتاؤ کہ اس کا منہ کس طرف ہے۔۔؟ 
مسلمانو تم ایمان رکھتے ہو کہ تمہارے رب کا وجود ہے تو پھر یہ بتاؤ کہ تمہارے رب کے وجود کی ساخت کیا ہے ۔۔؟
وہ کس چیز سے مل کر بنا ہے۔۔؟ اور تم یہ بھی ایمان رکھتے ہو اس زندگی میں نیک اعمال کرنے سے جنت ملے گی اور ہم ہمیشہ رہیں گے اور جنت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں انسان کو حاجت نہیں ہوگی۔ اس کے جسم سے فضلہ خارج نہیں ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے۔۔؟
اور یہ بات بھی تمھارے ایمان کا حصہ ہے کہ جو لوگ برے اعمال کریں گے ان پر آگ کا عذاب ہے ۔تمہارے ایمان کے مطابق جن کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔ ان کو آگ کیا نقصان پہنچائے گی۔؟
اور اس پر ان کا عذاب کیسے ہوگا۔۔؟ وہ ملحد شخص بغداد کے اس بازار میں اپنے سوالات دہراتا جا رہا تھا۔ مسلمانوں کی جانب سےعلما آتے اور اسے قرآن سے ریفرنس دیتے۔مگر وہ قرآن کی کوئی بھی دلیل کو ماننے سے انکاری تھا۔
محض عقلی دلائل دے کر آپ اس چیز پر قائل کر سکتے ہیں کہ خدا اپنا وجود رکھتا ہے۔

یہودی کے اللہ کی ذات کے بارے میں کیئے گئے 3 سوالات اور 11 سالہ بچے کے جوابات
Man's three questions about Allah _ 11 years boy's answers

بڑے بڑے علما اور مناظر کشمکش کا شکار ہوگئے۔ وہ شخص روزانہ اس بازار میں آتا اور اپنے سوالات با آواز بلند دہراتا۔اور جوابات کا انتظار کرتا ۔
ایک دن اپنے معمول کے مطابق وہ شخص با آواز بلند اپنے سوالات دہرا رہا تھا ۔کہ مجمے میں سے ایک گیارہ سال کا بچہ آیا۔ اس سے مخاطب کر کے بولا کہ ”اے زندیک ۔۔ تو اپنے سوالات مجھے بتا۔میں پھر تیرے سوالات کے جوابات دونگا۔”
اس ملحد شخص نے سمجھا کہ شاید یہ بچہ کسی کے کہنے پہ اس سے مذاق کر رہا ہے۔مگر اس گیارہ سالہ بچے کے چہرے پر سنجیدگی دیکھی تو اس نے اپنے سوال ا سے بتانا شروع کیے۔ اور کہا مجھے بتاؤ اللہ سے پہلے کیا تھا اور اسے خود کس نے پیدا کیا؟ 
وہ بچہ بہت اطمینان سے مسکرایا ۔اور پورے اعتماد کے ساتھ اسے کہا میں اس سوال کا جواب تمھں دیتا ہوں۔مگر پہلے تم 10 سے الٹی گنتی گننا شروع کرو۔ اس شخص نے 10 سے الٹا گننا شروع کیا۔1 پر آ کر رک گیا۔ اس بچے کے کہنے پر اس نے پھر سے الٹی گنتی کی مگر ہر بار وہ 1 پر آ کر رک جاتا۔ اس کے رکنے پر جب بچے نے اصرار کیا کہ اس سے آگے بھی تو پڑھو۔ 
تو وہ لکحد شخص اس سے اکتا کے بولا۔۔”کہ 1 سے پہلے کچھ نہیں ہے۔ صفر آتا ہے۔”
تو بچہ مسکرا کر بولا ۔۔” اچھا ۔ گنتی میں 1 سے پہلے کچھ نہیں ہو سکتا۔تو پھر وہ ذات جو واحد و یکتا ہے۔اس سے پہلے کیا ہو سکتا ہے۔اس سے پہلے بھی کچھ نہیں تھا۔صفر تھا۔وہ ذات قدیم سے بھی قدیم تر ہے۔وہی ابتدا ہے اور وہی انتہا ہے۔”
اس گیارہ سالابچے کی لاجواب کرنے والی منطق سے مجمے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔وہ ملحد شخص بھی لاجواب ہوگی۔ تو اس بچے نے اسے اشارہ کیا کہ اب اپنا اگلا سوال دہراؤ۔ 
پھر اس شخص نے اس بچے سے کہا کہ” تم لوگوں کا ایمان یہ ہے کہ خدا تمہارے تمام اعمال کو دیکھتا ہے ۔تو پھر یہ بتاؤ کہ اللہ کا منہ کس طرف کو ہے۔۔؟
اس بچے نے یہ سوال سن کر ذرہ دیر کے لیئے توقف کیا۔ تو اس شخص کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی۔جیسے وہ طنز کر رہا ہو کے مسلمانوں کا علم بس یہیں تک تھا۔ مگر وہ جانتا نہیں تھا کے وہ بچی[ہ اس لیئے خاموش نہیں ہے کہ اس کے پاس جواب نہیں ہے ۔بلکہ وہ اپنے جملوں کو تر تیب دے رہا تھا ۔
چناچہ وہ گویا ہوا کہ” اگر تم ایک تاریک کمرے میں جاتے ہو اور وہاں پر ایک شمع روشن کرتے ہو تو اس روشنی کا منہ کس طرف ہوگا۔۔۔؟
اس ملحد شخص نے کہا کہ ”وہ روشنی پورے کمرے میں پھلی ہوگی۔اس کا رخ ہر طرف کا ہوگا” 
تو اس پر اس بچے نے کہا کہ ”یہ تو مصنوئی دنیاوی روشنی کا حال ہے۔ کہ سب اطراف کو پھیل جاتی ہے وہ اللہ جو آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے ۔اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔کہ اس کا رخ کس طرف کو ہوگا۔کیا وہ طرف کو نہیں دیکھ سکتا ہوگا۔ کیا وہ ہر طرف کو نہیں پھیلا ہوگا ”
بچے کی عقلی دلیل پر مجمے نے نعرہ تحسین بلند کیا۔ اور پھر ان سب نے مل کر اس ملحد کو اپنے اگلے سوال کے لیئے پکارا۔ 
پھر اس شخص نے کہا کہ تم لوگ مانتے ہو کہ اللہ وجود رکھتا ہے ۔ تو پھر یہ بتاؤ کہ اس کے و جود کی ساخت کیا ہے ۔۔؟
کیا وہ لوہے کی طرح سخت ہے ۔پانی کی طرح سیال ہے۔ یا دھوئیں اور بخارات کی طرح اوپر کو اٹھنے والا ہے۔۔؟ 
اب مسلمانوں کے مجمے کی پوری امیدیں اس 11 سالہ بچی کے ساتھ منسلک تھی۔ کہ وہ اس مشکل سوال کا جواب ڈھونڈ نکالے گا ۔اس بچے نے اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کبھی ایسے مریض کے پاس بیٹھے ہیں جو قریب المرگ ہو یعنی اس پر حالت نزاع طاری ہو؟ 
اس نے جواب دیا ۔۔ ”ہاں”
اس بچے نے کہا کہ” وہ آپ کے ساتھ بات کر رہا ہوگا پہلے متحرک تھا لیکن موت کے بعد ساکن ہو گیا۔ اس کی یہ حالت کس نے بدل ڈالی۔۔؟ 
اس پر اس ملحد شخص نے کہا کہ ” اس کے جسم سے روح نکل گئی۔”
تو اس بچے نے کہا کہ ” اس کے جسم سے روح نکلی تو آپ وہیں پر موجود تھے۔ اس روح کی تعریف کیجئے کہ آیا اور لوہے کی طرح سخت تھی۔۔؟ پانی کی طرح سیال تھی ۔۔؟یا دھوئیں اور بخارات کی طرح اوپر کو اٹھنے والی۔۔؟
اس پر اس شخص نے کہا کہ” میں یہ کیسے بتا سکتا ہوں ۔اور اس روح کی تعریف کیسے کر سکتا ہوں۔ میں تو جسم سے اس روح کو نکلتے ہوئے دیکھ ہی نہیں سکتا۔”
اس بچے نے کہا کہ” جسم سے روح کو نکلتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے جوانتہائی مہین اور نفیس چیز ہے ۔اس ذات کو کیسے دیکھ سکتے ہو کہ جو روح کا خالق ہے۔ جب روح کو مانتے ہو بغیر دیکھے ہوئے تو اس کے خالق کو کیوں نہیں مانتے ۔۔؟
ملحد شخص بچے کا یہ جواب سن کر خاموش ہو گیا ۔اور پھر مرے ہوئے لہجے میں اپنا آخری سوال دہرایا۔کہ تم لوگ یہ یقین رکھتے ہو کے اس دنیا میں نیک اعمال کرنے پر جنت انعام ملے گی۔ جہاں پر مومنین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے ۔مگر وہاں پر ان کو حاجت نہیں ہوگی۔ اور جو کچھ کھائیں گے پییں گے مگر ان کے جسم سے فضلہ خارج نہیں ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے۔۔؟
تو اس بچے نے کہا ”ہم آپ اور سب تمام کی تمام مخلوق رہنما درد نو مہینے تک رہتے ہیں ۔کھاتے ہیں پیتے ہیں۔ لیکن فضلہ نہیں کرتے۔ اس جنت جیسی پاک اور صاف جگہ پر ہم کیسے یہ سب کچھ کر سکتے ہیں ۔یہ عین حقیقت ہے یہ عین ممکن ہے کہ جنت میں ہم جو کچھ مرضی ہو کھائیں گے مگر ہمیں کوئی حاجت نہیں ہوگی”
اس ملحد شخص نے بیتابی سے اپنے سوال کا دوسرا حصہ دہرایا کہ ”تم لوگ کہتے ہو کہ بد افعال کو دوزخ میں ڈالا جائے گا جو بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ اور تمہارے ایمان کے مطابق جنوں کو اللہ تعالی نے آگ سے تخلیق کیا۔ تو آگ سے تخلیق ہونے والی مخلوق پر آگ کیسے عذاب ہوگی۔۔؟ وہ اس کو کیسے تکلیف پہنچائے گی۔۔؟”
اس بچے نے کہا کہ ”اس سوال کے جواب کے لیئے مجھے ایک فعل کرنا ہوگا۔ اگر آپ ناراض نہ ہو ں۔”
اس شخص نے حامی بھری ۔تو اس بچے نے زمین سے مٹی کی کچھ مقدار اٹھائی۔ اور وہ اس شخص کے چہرے کی طرف پھینک دی۔اور اس کی آنکھوں میں ڈال دی۔
وہ شخص بگڑ کر بولا ”یہ تم نے کیا کیا ۔۔؟
اس پر اس بچے نے کہا کہ ”اس مٹی سے، جس سے تم نبے ہوے ہو۔تمھیں اس مٹی ستے تکلیف ہوئی ہے۔ایسے ہی آگ بھی ان جنوں کو تکلیف دے گئ۔ اور تم مجھے کہتے ہو کہ میں تمہیں اللہ دیکھاو ں؟ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ مجھے وہ درد دکھاؤ جو مٹی ڈالنے پر تمہیں محسوس ہوا ہے۔ اس کے بعد میں تمہیں اللہ دکھاؤں گا۔”
اس بچے کے اس بہترین جواب پہ اس مجمے نے اسے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ اور نعرہ تحسین بلند کرنے شروع کردیے۔ اور یوں ا س ملحد شخص کے فتنے کا اختتام ہوا۔ اور اللہ تعالی نے محض ایک بچے کے ذریعے اسے ذلیل و رسوا کرکے رکھ دیا۔ 
اب خواتین و حضرات تاریخ کی کتابوں کے مطالعے سے معلوم پڑتا ہے کہ ایسا واقع دو شخصیات سے منسوب ہے۔ پہلی محترم قابل قدر شخصیت امام جعفرصادق کی شخصیت ہے ۔ان کے بارے میں فرمایا جاتا ہے کہ وہ بچہ امام جعفر صادق تھے۔جبکہ دوسری کئی جگہوں پر اس بچے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ تھے۔
بہرحال وہ بچہ جو بھی ہو۔ ان دونوں قابل احترام ہستیوں میں سے کوئی بھی شخصیت ہو ۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ بچہ اہل علم میں سے ضرور تھا ۔اور اس نے ایسے بہترین جوابات فراہم کیے ۔جو آج کے زمانے میں بھی ملحدوں کو عقلی دلیل کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں ۔
اللہ تعالی ایسے فتنوں سے ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ رکھے۔۔ آمین