قرآن مجید میں اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کے بارے میں مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے
” آسمان اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا ملا جلا کر عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا بے اولاد رکھتا ہے ”
اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالی کی ذات کو غفورو رحیم ہے اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔یہ ہمارے اپنے اعمال ہی ہیں اپنے افعال ہیں جو ہمارے لئے مسائل کا باعث بنتے ہیں ۔
ہم سب کی آج کے آرٹیکل میں ہم مرد عورت کے علاوہ ایک تیسری جنس مخنث کے بارے میں بات کریں گے جس سے زنا ہجڑا اور خواجہ سرا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
آپ نے اکثر اپنی روٹین لائف میں انہیں شادی بیاہوں میلوں ٹھیلوں میں ناچتے گاتے دیکھا ہوگا ۔اور بعض شہروں کے باعث ٹریفک سگنلز پر یہ بھیک مانگتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں ۔
سوائے خواجہ سرا کے اس جنس کو دیے گئے تمام ناموں میں تحقیر حقارت کی امید نظر آتی ہے۔
اس جنس کو خواجہ سرا کا لقب مغل بادشاہوں نے عطا کیا کہ فارسی میں خواجہ کا مطلب سردار اور سرا کا مطلب محل ہے ۔ اس دور میں انہیں پکارا خواجہ سرا پکارا جاتا تھا ۔محلات میں شاہی خواتین کی تکریم کو برقرار رکھنے کے لئے اور محل میں مردوزن کے اختلاط کو روکنے کے لیئے انکو رکھا جاتا تھا۔مغل دور میں انکی بڑی عزت کی جاتی تھی ۔مگر پھر زمانے نے گردش لی اور یہ گلی گلی تحقیر کا نشابہ بننے والی مخلوق بن گئے۔ 
اب سال یہاں پے یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کونسے طبی نتائج ہوتے ہیں جن کے باعث مذکر اور مونث کے بجائے مخنث کا وجود پیدا ہوتا ہے۔ اس کا جواب ہم سب اس آرٹیکل میں اب تک پہنچائیں گیے۔
جہاں تک بائیولوجیکل فارمیشن کا تعلق ہے تو عورت ایکس ایکس اور مرد ایکس وائی کروموسوم پیدا کرتے ہیں۔ دونوں کی یعنی مرد کا ایکس عورت کے ایکس کروموسوم کے ساتھ مل جائے ۔اور ڈبل ایکس بن جائیں تو لڑکی پیدا ہوتی ہے اور اگر مرد بائیکروم پیدا کرے جو عورت کے ایکس کے ساتھ ملکر ایکس وائی بن جائے تو لڑکے کی پیدائش متوقع ہوتی ہے۔
اس میں مرد کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے اگر اس میں عدم توازن ہوجائے تب ہیجڑا پیدا ہوتا ہے شاید ان کے جنیٹکس بیلنس نہیں ہوسکتے ۔

ہيڑا مرد ہوتا ہے يا عورت۔؟
Transgender is male or female.?


خواتین و حضرات یہاں پر یہ بات جان لینا نہایت ضروری ہے کہ نہ تو ہیجڑے کوئی الگ مخلوق ہے اور نہ ہی کوئی الگ قوم۔ وہ انسان ہی ہے جسمانی اوصاف کے اعتبار سے ان میں سے بعض کامل مردانہ اوصاف سے محروم ہوتے ہیں اور بعض زنانہ حساب سے ۔
ان کی تخلیق کا نقص ہے جو ان کے پروردگار نے ان میں ایسے ہی رکھا ہے انسانوں کو ہم خلقی اعتبار سے بعض دوسرے اعضاء سے پیدائشی طور پر معذور پاتے ہیں انسانوں میں بعض نتائج جو اللہ تعالی نے رکھی ہیں یہ ظاہر ہے رکھے ہیں انسان کسی بھی اعتبار سے معذور پیدا کئے گئے ہیں ۔تو اگر خود عامل عقل و شعور رکھتے ہیں تو ان کا امتحان اس دنیا میں صبر کا امتحان ہے۔
خواجہ سرا اس دنیا ہی میں پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ ماضی میں بھی ایسے لوگ انسانوں کے مابین پیدا ہوتے رہے ہیں۔ بعض روایتوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں انکے وجود کا تذکرہ ملتا ہے ۔
حضرت علی جن کی علم و حکمت میں کوئی ثانی نہیں تھا ۔ان سے دریافت کیا گیا کہ ہیجڑے کی وراثت کا مسئلہ کیا ہے ؟
تو آپ نے فورا جواب دیا کہ ہجڑے کی وراثت کا تعین اس کی مشابہت کی بنا پر کیا جائے گا اگر وہ مرد کے مشابہ ہیں تو مرد کا حصہ پائے گا اور اگر اس کی جسامت عورت کے مشابہ ہے تو اسے عورت کا حصہ ملے گا ۔
اس سے ایک چیز کو یہ معلوم ہوگی کہ اسلام میں والدین اور دیگر کی جائیداد میں ہجڑے کا حصہ موجود ہے ۔لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان بیچاروں کو کچھ نہیں ملتا جو کہ سراسر ناانصافی ہے اور اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ورزی ہے ۔افسوس اور بدقسمتی کا مقام یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ کہلانا پسند کرتا ہے ۔اس میں ان بیچاروں کے بارے میں غلط تاثر پایا جاتا ہے ۔وہ عزت و احترام نہیں ملتا جو معاشرے کے مرد و زن کو ملتا ہے ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے
” ان مردوں پر لعنت ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔”
لیکن کچھ لوگ نے انکو اپنے گھروں سے نکالا اس حدیث کو بنیاد بناکر۔ 
جوہیجڑے گھر میں پیدا ہوتے ہیں گھر سے نکال دیتے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اسلامی شریعت میں باقاعدہ طور پر قدرتی طور پر پیدا ہونے والے ہیجڑے بچوں کے لئے وراثت میں حق بھی رکھا گیا ہے ۔اور انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کسی بھی ذی روح کو حاصل ہوتے ہیں۔
اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ بچے جو قدرتی طور پر مخنث پیدا ہو ،انہیں گھروں سے نکالنے کا حکم نہیں ہے بلکہ یہ حدیث خاص طور پر ان لوگوں کے لیے ہے جو جان بوجھ کر مخالف جنس کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔
اس معاملے میں سب سے پہلے تو والدین کو یہ شعور دینا چاہیے کہ اگر آپ کے گھر کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے تو اس میں کمزوری صرف اتنی ہوگی کہ وہ شادی کے افعال کی انجام دہی سے معذور ہے۔
بچے کو قابل نفرت نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ معذور سمجھ کر معاشرے کا کار آمد شہری بنانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ اور دوسری اہم بڑی ذمہ داری حکومت پر آتی ہے کہ ان لوگوں کو ان کی صنفی شناخت کی وجہ سے ان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور یہ ٹریفک سگنل پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔اس سلسلے میں قانون تو موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد ہوئی نہیں کرتا ۔
لوگ جو پیدائشی طور پر ایک جسمانی نقص لے کر پیدا ہوتے ہیں انہیں وہ تمام حقوق دلائے جائیں کہ جو اسلام نے انہیں عطا کیے ہیں ۔
اسی طرح ان لوگوں کی شناخت کے ساتھ جو غلط دھندے مختص کر دیے گئے ہیں وہ بھی کسی طریقے سے ختم کروائے جائیں