اللہ پاک نے کروڑوں جاندار پيدا کيے ہيں ہر جاندار کی خلقت میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہے ہر جانور کی کوئی نہ کوئی خاصیت ہے جو فائدہ یا نقصان پہنچا تی ہے ان لاکھوں کروڑوں اقسام کے جانداروں میں سے ایک جانور کتا ہے کتا عام طور پر وفا کی علامت سمجھا جاتا ہے یہ اپنے مالک کو اس کے دشمنوں سے محفوظ رکھتا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہوا ہے کہ جس گھر میں کتا ہو اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے
کتا رکھنے کی ممانیت کیوں کی گئی؟؟ اور جب اس کی ممانیت کی جانی تھیں تو اللہ تعالی نے اس کو کیوں پیدا کیا اور کس طرح پیدا کیا ؟؟
کتے کی تخلیق کے مقصد کے بارے میں اور کتے کو کیسے پیدا کیا گیا اس بارے میں دو حکایات ہیں قدیم کتابوں کے مطابق ابليس یعنی شیطان ایک جن تھا اور اللہ تعالی نے اس کی عبادت کے باعث اسے فرشتوں میں شامل کرلیا بعدازاں اس کی ریاضت کا سلسلہ جاری رہا اس کائنات کا کوئی ایسا کوئی ایسا ٹکڑا نہیں تھا جس پر ابلیس نے سجدہ نہ کیا ان ریاستوں اور ان عبادتوں کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالی نے ابلیس کو فرشتوں کا سردار بنا دیا لیکن پھر ابليس غرور کا شکار ہوگیا اور اس نے مٹی کے پتلے یعنی آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو شرک کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا قدیم صحائف میں لکھا ہے کہ جب شیطان کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے حضرت آدم پر حقارت سے تھوک دیا شیطان کا تھوک حضرت آدم کے پيٹ پر گرابعدازاں اللہ تعالی نے حضرت جبرائيل سے تھوک نکالنے کا حکم دیا تو انہوں نے وہ مٹی نکال دی تو وہاں پیٹ پر ایک چھوٹا سا سوراخ بن گیا وہ سوراخ آج بھی ناف کی شکل ميں ہمارے پيٹ پر موجود ہے اللہ تعالی نے ناف کی مٹی سے بعد ازاں کتا بناياکتے کی دو خصلتيں ہيں ايک يہ کہ وہ انسان سے محبت کرتا ہے کیونکہ یہ انسان کیمٹی سے پيدا کيا گيا ہے اور انسان پر بھونکتا ہے اس کی وجہ یہہے اس میں شیطان کا تھوک شامل ہے یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کتا دنیا کی واحد مخلوق ہے جو شیطان کو بھی دیکھ سکتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ رات کے اندھیرے میں جب شیطان کے قافلے آسمانوں سے اترتے ہیں تو کتے اوپر دیکھ کر ایک خوفناک آوازیں نکالتے ہیں کتے کی تخلیق کا سبب اور اس کی پیدائش کے عمل کے بارے میں دوسری روایت ہمیں نورالمبین نامی کتاب میں ملتی ہے ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ تعالی نے کتے کو کیوں پیدا کیا آپ نے فرمایا کہ اللہ نے اس کو ابلیس کی تھوک سے پیدا کیا اللہ نے حضرت حوا علیہ السلام کو زمین پر اتارا تو یہ دونوں چڑیوں کی چوزں کی مانند کانپ رہے تھے اس وقت ابلیس زمین پر حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے آچکا تھا جب اس نے انہیں دیکھا تو دوڑا اور زمین کے درندوں کے پاس پہنچا اور بولا کہ آسماں سے دو پرندے گرے ہیں ان سے بڑا پرندہ ش کبھی کسی نے نہیں دیکھا چلو انہیں کھالو ابليس راستے میں للکار رہا تھا اور چلا رہا تھا کہ اب تھوڑی دور کی مسافت ہے ہیں اور جلدی جلدی بولنے سے اس کے منہ سے تھوک گر رہا تھا تو اللہ نے اس تھوک سے نر اور مادہ پیدا کر دیے وہ دونوں حضرت آدم اور حضرت حوا علیہ السلام کے سامنے کھڑے ہوگئے اور ان دونوں نے ان درندوں سے دونوں کو بچايا اسی دن سے کتا جنگل کے درندوں کا دشمن اور درندے کتوں کے دشمن ہوگئے غالبا کتے میں وفا کا عنصر اسی لئے شامل ہے کہ یہ روز ازل ہی سے انسان کی حفاظت کے لیے مامور کیا گیا ہے
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب اس میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے تو اس کے باوجود کتے کو گھر میں رکھنے سے مسلمانوں کو کیوں منع فرمایا گیا ہے ہمیں بلا ضرورت گھر میں کتے پالنے کی ممانیت کیوں فرمائی حضرات بڑے دکھ کی بات ہے کہ یورپ کی تکلیف میں ہمارے ہاں بھی امیر گھرانوں میں کتوں سے کھیلنا اور شوقیہ طور پر گھروں ميں پالنا ہر جگہ ديکھا جاتا ہے۔

اسلام میں کتے رکھنا بالکل ہی منع نہیں کیا گیا بلکہ اس کی ایک محدود اجازت کچھ شرائط کے تحت دی گئی ہے چنانچہ جو کتے کسی ضرورت سے پالے جائیں مثلا شکاری کتے یا کھیت اور مویشی وغیرہ کی حفاظت کرنے والے کتے وہ اس حکم سے باہر ہے مشاہدے کی بات یہ ہے کہ لوگ کتوں پر تو خوب خرچ کرتے ہیں لیکن انسان کی اولاد پر خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث پہنچاتے ہیں کہ میرے پاس جبرائیل تشریف لائے اور کہا گزشتہ شب میں آیا تھا لیکن گھر میں داخل نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ دروازے پر مجسمہ اور گھر میں تصویروں والا پردہ تھا اور گھر میں کتا بھی تھا لہذا جو مجسمہ ہے اس کا سر آپ اس طرح کروا دیجیے کہ وہ درخت کی شکل میں رہ جائے اور پردہ پھٹ کر تکیہ بنا لیجئے اور کتے کو گھر سے باہر نکلوا دیجیے۔اسلامی معلومات کے بعدکچھ جدید سائنسی معلومات بھی شئیر کریں کیونکہ یہ وہ دور ہے جس میں ذہنوں میں سوالات جنم لیتے ہیں چنانچہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ کچھ سائنسی انکشافات کے ذریعے آپ کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے ان سوالوں کا جواب دلیل پر وارد کریں تاکہ ایک عام مسلمان اپنے دین پر ایمان مضبوط رکھے اور وہی ایک غیر مسلم کے دل میں بھی دین اسلام کے برحق ہونے کے بارے میں ایک منصف پیداہوسکے علامہ یوسف القرضاوی نے ان سائنسی معلومات کو اپنی کتاب اسلام میں حلال وحرام کے ذریعے ایک جرمن سکالر نور سے قلم بند کیا ہے اس ایک جرمن رسالے میں شائع ہوا تھا اس مضمون میں ان اہم خطرات کو بیان کیا گیا ہے جو کتے کو پالنے کے اس کے قریب رہنے کی صورت میں لاحق ہوتے ہیں ہے لوگوں کے اندر کتا پالنے کا کا شوق کافی بڑھ گیا ہے جس کے پیش نظر يہ صورت محسوس ہوتی ہے کہ لوگوں کی توجہ ان خطرات کی طرف مبذول کرائی جائے جو اس سے پیدا ہوتے ہیں خصوصا جب کے لوگ کتا پالنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس گھر میں اس طرح چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ چھوٹوں اور بڑوں کے ہاتھ چاٹ لے انکی پلیٹوں میں کھانا کھا جائے پھر بھی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کتے کو پالنے اور اس کے ساتھ کچھ تباہ کرنے سے جو خطرات انسان کی صحت اور اس کی زندگی کو لاحق ہوتے ہیں ان کو معمولی خیال نہیں کیا جاسکتا بہت سے لوگوں کو اپنی نادانی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کتوں کے جسم پر ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو دائمی اور لاعلاج امراض کا سبب بن گئے ہیں بلکہ کتنے ہی لوگ اس مرض میں مبتلا ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہيں ہے ہوتے يہ جراثيم فيتا کی شکل ميں ہوتے ہيں اور یہ انسان کے جسم پر پھنسی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں وہ اس قسم کے جراثیم مویشی اور خاص طور سے سوروں کے جسم پر بھی پائے جاتے ہیں لیکن نشونما کی پوری صلاحیت رکھنے والے جراثیم صرف قوتوں پر ہوتے ہیں یہی جراثیم گیدڑ اور بھیڑیے کے جسم پر بھی ہوتے ہیں یہ جراثیم اتنے باریک ہوتے ہیں کہ دکھائی دینا بھی مشکل ہوتا ہے جرمن سکالر نولر آگے لکھتا ہے یہ جراثیم انسان کے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں مختلف شکلوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں اکثر پھپھڑے، معدے اور اور سر کے اندرونی حصے میں داخل ہوتے ہیں ان کی شکل بہت کچھ بدل جاتی ہے یہاں تک کہ خصوصی ماہرین کے لیے بھی ان کی شناخت مشکل ہوجاتی ہے پہر اس سے جو زخم پیدا ہوتا ہے خواہ وہ جسم کے کسی بھی حصے پر ہو صحت کے لئے سخت مضر ہے ان جراثیم کا علاج اب تک دریافت نہیں کیا جاسکا جرمن ڈاکٹر نولر کا بیان یہ ہے کہ کتے کے جراثیم سے انسان کو جو زخم آتے ہيں ان کی تعداد ایک فیصد سے کسی طرح کم نہیں اور بعض ممالک میں تو 12 فیصد تک اس میں مبتلا پائے جاتے ہیں اس مرض کا مقابلہ کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ ان جراثیموں کو کتوں تک ہی رہنے دیا جائے اور انہیں پھیلنے سے روکا جائے اگر انسان اپنی زندگی محفوظ کرنا اور اپنی زندگی کو باقی رکھنا چاہتا ہے تو اسے کتوں کے ساتھ خوش طبعی نہیں کرنا چاہیے اپنے قریب آنے سے روکنا چاہیے بچوں کو ان کے ساتھ کھيلنے سےباز رکھنا چاہیے کتوں کو ہاتھ چاٹنے کے لیے نہیں چھوڑ دینا چاہیے اور نہ ہی بچوں کو کھیل کود اور تفریح کے مقامات میں رہنے اور وہاں گندگی پھیلانے کا موقع دینا چاہیے اسی طرح کتےکے کھانے کے برتن بھی الگ ہونے چاہیے جو برتن انسان استعمال کرتا ہے ان کو کتوں کے آگے چاٹنے کے لیے نہیں ڈالنا چاہیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کتا کسی کے برتن میں منہ ڈالے تو اسے چاہیے کہ برتن کو سات مرتبہ دھوئے اور ان میں سے ایک مرتبہ مٹی لگا کر دھوئے۔
اميد ہے آپ کو يہ معلومات پسند آئيں گی اور آپ دوسروں کے ساتھ شيئر کريں تاکہ انہيں نقصان سے بچايا جائے
