اللہ نے اپنی مخلوقات کو نہ صرف بیشمار صلاحیتیں دیں بلکہ مختلف حواس بھی عطا کیے جسکی بنیاد پر وہ روز مرا کی زندگی بسر کرتے ہیں. جیسا کہ انسانو کی ایک قسم جو جنگلات میں رہتی ہے انمیں یہ ایک خاصیت پائی جاتی ہے کہ یہ خطرات کو دور سے بھانپ لیتے ہیں. مثلا اگر طوفان آنے والا ہو تو یہ آسمان کی رنگت اور ہوا کی بو سے اس چیز کا اندازہ لگا لیتے ہیں. اسی طرح زمین پر کان لگا کر زلزلہ کی پیشن گوئی کر لیتے ہیں. اسی طرح الله نے چرند پرند میں بھی یہ خاصیتیں رکھی ہیں کہ دوست دشمن اور حالات کا اندازہ کر لیتے ہیں. جیسے اگر طوفان یا زلزلہ انے والا ہوتو گھوڑا اپنے کان گھمانے لگتا ہے اور بارش انے والی ہوتو اس سے پہلے چوٹیاں اپنا کھانا اکٹھا کر لیتی ہیں. اسی طرح شہد کی مکھی ہزاروں میل کا سفر تہہ کر کے اپننے ہی چھٹے میں آجاتی ہے. لہذا الله نے ہر جاندار میں یہ خاصیتیں رکھی ہیں. جو انکی زدگی کو بچانے میں استعمال ہوتی ہیں.
قرآن میں الله فرماتا ہے کہ کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا انکے دلوں پر تالے لگے ہے ہیں؟ سوره نمل میں چوٹیوں کے بارے میں ذکر آیا ہے جسکا مفہوم یہ ہے کہ حضرت سلیمان اپنے لشکر کے ساتھ نکلے تو وادی نمل سے گزر ہوا جو چیونٹیوں کی وادی تھی. وہا سے گزرے تو ایک چونتی نے دوسری سے کہا کہ جلدی جلدی اپنی بلوں میں گھس جاؤں کہیں سلیمان کی فوج تمہں کچل نے ڈالے اور انکو خبر بھی نہ ہو. جب حضرت سلیمان نے یہ سنا تو مسکرائے اور فوج کا راستہ بدل دیا. حضرت سلیمان چیونٹیوں سے بات کیا کرتے تھے اور انکی بات بھی سمجتھے تھے. اب سائنس نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ چیونٹیاں ایک بہت ہی کمپلیکس سوشل سسٹم میں رہتی ہیں. وہ انفارمیشن ایک دوسرے تک پوھنچاتی ہیں اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ وہ آواز سے ایک دوسرے سے بات نہیں کرتی بلکہ وہ ڈیٹا بھجتی ہیں ایک دوسرے کو. وہ ایک مواد پیدا کرتے ہیں جسکو وہ دوسرے کے منہ میں دیدیتی ہیں اسمیں انفارمیشن ہوتی ہے جسکو دوسری چونتی سمجھ لیتی ہے. اسی لیے چیونٹیوں کو ایک دوسرے سے منہ لگا کے بات کرتے دیکھا ہوگا.