اللہ پاک تمام جہاں کو پالنے والا ہے۔ وہی چرند پرند دہ کے ہر قسم کی مخلوقات کو اپنے رزق خير سے پالنے کا بھی مالک ہے اور اس کے لئے اللہ تعالی کبھی رزق کی تلاش میں جاتی چونٹیوں کے لیے بڑے بڑے لشکروں کار خ بدلوا دیتا ہے۔ تو کبھی چھوٹی سی چڑیا کو زندہ جانور سے خوراک حاصل کرنے کا حکم دے دیتا ہے۔
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ جہاں ایمیزون کے جنگل میں موجود تتلیاں اپنی خوراک میں سوڈیم لینے کے لئے کچھوے کے آنسو پی کر غذا مکمل کرتی ہیں وہی پتھر کے اندر موجود کیڑے تک اپنا رزق آسانی حاصل کر لیتے ہیں اسی طرح مگرمچھ کے دانتوں سے گوشت نکال کر اپنا رزق کمانے والی چڑیا بھی اس دنیا میں اپنا وجود رکھتی ہیں جو اپنی خوراک کے ساتھ ساتھ مگرمچھ کے دانت صاف کرنے کا فریضہ بھی سرانجام دیتی ہيں ۔
امام عبداللہ بن زکریا بن محمد القزوینی جنہوں نے اپنی کتاب عجائب المخلوقات میں آٹھ سو سال پہلے شائع کی تھی ۔ جس ميں امام عبداللہ نے آٹھ سو سال پہلے ہی بتایا تھا کہ اس کائنات میں ایک ایسا پرندہ بھی اپنا وجود رکھتا ہے جو مگرمچھ کے دانتوں سے اپنا رزق کھا تا ہے۔ اور مگرمچھ کو بھی اس سے سکون ملتا ہے لہذا اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ معرفت سائنسی تخلیقات میں مغرب سے بھی آٹھ سو سال آگےتھی۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو مذہب اور سائنس دونوں کا نور عطا کرتا ہے اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسلام دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ دِین ہے جو نہ صرف قدم قدم سائنسی علوم کے ساتھ چلتا نظر آتا ہے بلکہ تحقیق میں رہنمائی بھی کرتا ہے جیسا کہ موجودہ دور میں بھی کررہا ہے اور اس کی ایک مثا ل مگر مچھ کی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مگرمچھ کا جبڑا باقی تمام جانوروں کے جبڑوں سے زیادہ تک طاقت ور ہے۔مثال کے طور پر آسٹریلیا کے کھارے پانی میں رہنے والا مگرمچھ شیر سے تین گناہ زیادہ زور سے کاٹ سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مگر مچھ کا جبڑا بہت حساس بھی ہوتا ہے۔ اس پر مزيد تحقيق کرتے ہوئے مشہور سائنسدان کا کہنا ہے کہ مگرمچھ کے جبڑے میں موجود تمام اعصابی ریشے کھوپڑی میں موجود ایک سوراخ سے نکلتے ہیں۔ جو جبڑے کو اس قدر حساس بنا ديتے ہيں کہ سائنسدان آلات کے ذريعے بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ اس طرح مگر مچھ جان ليتا ہے کہ مگر مچھ کے منہ ميں خوراک ہے کہ گند۔ اب جبکہ ان کے جبڑوں کے حساس ہونے کی بات ہے لہذا اس حساسيت کے باعث ان کے جبڑوں کی صفائی بھی بے حد ضروری ہے۔ تو آپ ديکھيں اس کا اللہ پاک نے بہت ہی زبر دست انتظام فرمايا ہے۔
سرديوں کے موسم ميں مگر مچھ بڑے شوق سے خشکی پر نکل کر اپنا منہ کھول کر س دھوپ سیکنتا ہے اس کے جسم کی اوپری کھال تو اتنی سخت ہوتی ہے کہ اس پر آبی کيڑے اثر نہيں کر سکتے۔ليکن اگر پانی کے اندر اس کا منہ کھلا رہ جائے تو جونک چپک جاتی ہے اور خون چوستی رہتی ہے۔اسی طرح مگر مچھ کے بڑے دانتوں میں کبھی کبھی گوشت کے ٹکڑے بھی پھنس جاتے ہیں ۔ چونکہ مگرمچھ کی زبان نہیں ہوتی اس وجہ سے دانتوں میں گوشت کے ٹکڑے یا منہ میں چپکی جوں کو ہٹایا نہیں جا سکتا ۔جب وہ خشکی پر آکر منہ کھولتا ہے۔ تو تھوڑی دیر میں کوئی نہ کوئی پرندہ کھلے ہوئے منہ میں داخل ہوتا ہے اور اس ميں گوشت کے ٹکڑے اور جونک چن چن کر کھا جاتا ہے ہیں اور مگرمچھ بھی آرام سے منہ کھو ليٹے رہتا ہے۔ نظام قدرت تو دیکھیے کہ طاقتور ہونے کے باوجود مگر مچھ ان پرنوں کو نہيں نگلتا۔ بلکہ صفائی کرنے کے بعد بغیر کسی مزاحمت کے اس کو واپس جانے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔