کہا جاتا ہے سیاست میں کوئی حتمی بات نہیں۔ ذاتی مفادات کی خاطر کبھی اپنا بیان بدلا جاتا ہے تو کبھی سیاسی چال۔لیکن پاکستان نے سیا سی حالات دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔کیونکہ یہاں حتمی بات تو ایک جانب ، اخلاقیات بھی نظر نہیں آتی ۔ کل تک جو جو ایک دوسرے پر کرپشن کا الزام لگا تے تھے۔سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرتے تھے۔ چور ڈاکو کے علاوہ ایک دوسرے کو غدار تک بول رہے تھے۔ آج اپنے ذاتی مفادات کی خاطر شیر و شکر ہوے پڑے ہیں۔
بلاول بھٹو اور شہبازشریف کبھی عوام کے لیے تو اکھٹے نہ ہوئے۔لیکن اب جب بلاول کا ابا اور شہباز شریف کا بیٹا جیل میں ہیں تو دونوں کو ایک دوسرے کی یاد آ کئی۔دونوں رہنمائوں نے عوام کے ووٹوں سے آئی حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاری کے تفصیلی ملاقات کی۔
میڈیا ذرائع کے مطابق آج بلاول شہباز ملاقات کا مقصد بلاول کو آزادی مارچ میں شرکت اور ملک میں فوری عام انتخابات کے لیے تحریک چلانے پے قائل کرنا ہے۔ اب بلاول بھٹو قائل ہوتے ہیں یا نہیں۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔
مگر یہ طے ہے کہ یہ دونوں رہنما بلاول بھٹو اور شہباز شریف ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہاتھ کرنے جا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن گزشتہ برس اگست میں حکومت کے خلاف دھرنا دینا چاہتے تھے مگر وہ اپوزیشن کی جماعتوں نے مولانا کو ٹرک کی بتی کے کے پیچھے لگا ئے رکھا۔ اب پھر ہر بار مولانا کے سامنے کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں ۔جس سے مولانا کو اجتجاج موخر بی کرنا پڑتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے اب حتمی طور پر اکتوبر میں اسلام آباد کر لاک ڈاون کرنے کی ڈیڈ لائن دے رکھی تھی۔ مگر مسلم لیگ نون نے اکتوبر میں احتجاج میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اکتوبر کے بجائے نومبر میں اسلام آباد لاک ڈاون کرنے کا اعلان کریں۔
مولانا فضل الرحمان اگر اکتوبر کے بجائے نومبر میں احتجاج کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس سے احتجاجی تحریک مکمل طور پر ناکام ہو جائے گی۔ کیونکہ کہے اسلام آباد میں شدید سردی شروع ہوجائے گی۔گے اور سردی میں دھرنا دینا مولانا کے بس کی بات نہیں۔ یوں لگتا ہے
شہباز شریف صاحب چاہتے ہی نہیں کہ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد لاک ڈاون کریں ۔
گزشتہ روز مسلم لیگ نون کے اجلاس میں بھی شہباز شریف نے لانگ مارچ اور آزادی مارچ کے خلاف موقف اختیار کیا۔ آزادی مارچ کے التوا حق میں دلائل دیے۔شہباز شریف حالانکہ نے کہا کہ مارشل لا کے خدشے کا خطرہ ہے ۔ آزادی مارچ اور لاک ڈاون ناکام ہو گئے تو اپوزیشن کہاں کھڑی ہوگی؟۔
چیئرمین سینٹ کی تبدیلی میں ناکامی کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔مسلم لیگ نون کو ذمہ دار اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کو محاذ آرائی سے بچانا اور جمہوری اور پارلیمانی نظام چلنے میں مدد فراہم کرنی چاہئے۔سیاست سے پہلے ہی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ اب شہباز شریف خود تو دھرنے میں شرکت کے قائل نہیں مگر مولانا کو خوش کرنے کے لیے بلاول بھٹو سے ملاقات کر لی کیونکہ شہباز شریف ہمیشہ وکٹ کے دونوں جانب کھیلتے ہیں۔
لگتا ہے مولانا فضل الرحمان کے معاملے پر بھی شہباز شریف کچھ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ کہ مولانا فضل الرحمن بھی خوش ہو جائے اور احتجاج بھی نہ ہو ۔