مسجد اقصیٰ کا سودا ؟ تاریخی معاہدہ کیا ہے ؟

0
1856

س میں کوئی شک نہیں ہے کہ 14 اگست مسلمانان پاکستان کے لیے اک اہم دن ہے۔ لیکن اسی دن متحدہ عرب امارات نے  اسرائیل کو نہ صرف تسلیم بلکہ اس کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا باقاعدہ آغاز اور اعلان بھی کر دیا ہے یہ بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور یو اے ای کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید کے ایک مشترکہ بیان کی صورت میں سامنے آئی جو کہ بلاشبہ اسرائیل کے لئے اس کے قیام کے بعد سب سے بڑی کامیابی ہے اور اسی وجہ سے اس کے وزیراعظم نے اپنے ٹویٹ میں ایک تاریخ دن قرار دیا ہے جبکہ دوسری جانب یہ امت مرحومہ کے لئے اس کے صدیوں کے گناہوں کے شاخسانے سے کم نہیں جوکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مفہوم یعنی عربوں کے لیے تباہی ہے کی عملی تصویر بن کرسامنے آ ئی ہے۔ 

 اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کی صورت امریکہ کی ثالثی میں متحدہ عرب امارات جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا اس نے تاریخ میں پہلی دفعہ اسے ایک آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم کرتے ہوئے نیتن یاہو کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں اور اپنے مشترکہ اعلامیہ میں کہا ہے کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں بحالی امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا جبکہ یہ مزاحیہ شرط بھی اس معاہدے کا حصہ ہے کہ اسرائیل اردن کے مغربی علاقے جن کو نگلنے کے لیے بے تاب ہے پر خاموشی اختیار کر لے گا لیکن اس معاہدے میں بدقسمتی سے نہ تو کہیں فلسطینی مسلمانوں کے حقوق پر بات کی گئی اور نہ ہی بیت المقدس یا مسجد اقصیٰ کی حرمت کا تذکرہ ملتا ہے بلکہ اگر آپ کے اعساب اجازت دیں تو یو اے ای کے امریکہ میں سفیر کے اس بیان کو پڑھ لیں جس میں انھوں نے یہ مضحکہ خیز جھوٹ بیان کیا ہے اس معاہدے سے خطے میں کشیدگی کم ہوگی جس کے بعد دونوں ممالک کے وفود نہ صرف ایک دوسرے کے ہاں دورہ کریں گے بلکہ باہمی معاہدے بھی ہوں گے جن میں باہمی طور پر سرمایہ کاری سیاحت براہ راست فضائی پرواز یعنی اگر مسلمانوں کو سجد اقصیٰ جانے کی اجازت ملے گی تو ساتھ ہی اسرائیلی یہودیوں کی ایجنٹ بھی مشرق وسطیٰ میں اپنے کھیلنے میں آزاد ہوں گے ۔

ٹیلی کمیونیکیشن جس میں ٹیلی فون انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات بھی شامل ہوں گی ان کے علاوہ باہمی سکیورٹی کے معاہدے بھی کیے جائیں گے یعنی اب خربوزے کی حفاظت کے لیے گیدڑ پر اعتماد کی روایت قائم کی جارہی ہے جبکہ ٹیکنالوجی اور صحت کے میدان میں بھی باہمی تعاون کے معاہدوں کے ساتھ ساتھ باہمی ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے گی اور جلسے کے  آپ سب جانتے ہیں کہ جنوری دو ہزار بیس میں سعودی عرب پہلے ہی اسرائیلی شہریوں کو اپنے ملک آنے کی اجازت دے چکا ہے جس کے مطابق یہودی وہاں اپنے کاروبار اور سیاحت کے لیے سرزمین حجاز کا سفر کر سکتے ہیں۔ گویا ابھی سلامی جمہوریہ پاکستان ہی باقی ہے جس کے پاسپورٹ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ سوائے اسرائیل کے پوری دنیا کے لئے کارآمد ہے ذرا اس موڑ پر تھوڑی دیر کے لئے رکتے ہیں ذرا منظرنامہ ملاحظہ کریں تو بات پوری سمجھ آ جائے گی اب دنیا آپ پورے وجود کے ساتھ یہودیوں کی گود میں پناہ لینے کے لئے آمادہ ہو چکی ہے بلکہ خود سعودی عرب جس نے اگرچہ ابھی کھل کر اسرائیل کے ہاتھ میں کوئی فیصلہ نہیں دیا صرف یہودیوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے کا ہی نہیں بلکہ ایران کے خلاف اس کا اتحادی بھی بن چکا ہے گویا اسرائیل اپنے راستے کی تمام دیواروں کو گرا کر اب مسلمانوں کا قتل سجانے کی تیاری مکمل کر چکا ہے جس کے بعد نہ صرف فلسطینی مسلمانوں کا مزید قتل عام آسان تر ہوگا بلکہ یور سلم کی بے حرمتی خاک بدن مسجد اقصیٰ کی شہادت قبول ٹیمپل کی تعمیر جیسے اقدامات بھی اب زیادہ دور نظر نہیں آتے امید اور یقین کیا جا سکتا ہے کہ  پاکستان ہی وہ خطہ ہے جہاں سے ایک ایسا لشکر اسلامی نکلے گا جو عربوں سے زیادہ بہتر شاہسواروں پر ہوگا اور اس کے پاس اپنے عہد کے بہترین ہتھیار بھی موجود ہوں گے اور اب یہ بات زیادہ یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کا قیام جو کہ بیسویں صدی کا ایک وجہ تھا اس کے پیچھے کوئی بہت بڑی حکمت خداوندی پوشیدہ تھی جس کے اثرات اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے جا رہے ہیں اور ذرا غور کیجئے گا کہ اس تازہ ترین بی وقار معاہدے کے لیے 14 اگست کا انتخاب بھی کیوں کیا گیا ہے