اس جہاں کی تمام مخلوقات چرند ، پرند، دريا، پہاڑ، سمندر الغرض يہ کہ ہر چيز چھوٹی سے ليکر بڑی مصلحت کے تحت پيدا کی گئی ہے
اللہ پاک نے دنيا کی کسی بھی چيز کو بھلے وہ کتنی ہی چھوٹی کيوں نہ ہو اس کو بنا کسی مقصد کے پيدا نہيں کيا۔
ايک نظريے کے مطابق مرغا اس دنيا ميں انسانوں سے پہلے آيا۔چھوٹی مگر نہايت کارآمد يہ مخلوق بہت سی خصوصيات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
آپ نے اکثر يہ جملہ اپنے بڑوں سے سن رکھا ہوگاکہ اس زمين پر انسانوں سے پہلے جنات آباد تھے تاہم جب حضرت آدم عليہ اسلام اور اماں حوا کو جب زمين پر بھيجا گيا تو جنات پر کچھ پابندياں اللہ پاک کی طرف سے لگا دی گئی۔
اگر غور کيا جائے تو معلوم ہوگا کہ جن و بشر کی دشمنی اور تنگ نظری کا يہی راز ہے۔ کہ جنات اس زمين کو اپنی جائيداد سمجھتے تھے ليکن اللہ پاک نے جب انسانوں کو نائب اور سب مخلوقات سے افضل بنا کر اس زمين پر بھيجا تو شيطان کے علاوہ جنات بھی اس عمل کے مخالف دکھائی ديئے۔ليکن چند طبقہ فکر افراد اس حقيقت کو تسليم نہيں کرتے اور يہ کہتے ہيں کہ اس کی کيا دليل ہے؟
اس اہم مسئلے کا اہم حوالہ حضرت علیؓ سے منسوب کيا جاتا ہے۔
ايک مرتبہ ايک شخص آپؓ کی خدمت ميں حاضر ہوا۔ اور کہنے لگا:کہ اے شير خدا مجھے اس بات کا مطلب ذرا واضح کر کے سمجھائيں کہ مرغ اونچی آواز ميں اذان کيوں ديتا ہے۔؟
يہ سوال سن کر آپؓ نے ارشاد فرمايا: اے شخص! ياد رکھنا۔ اللہ پاک نے ہر چيز ميں کوئی نہ کوئی مصلحت رکھی ہے
انسانوں سے لاکھوں سال پہلے زمين پر جنات بسا کرتے تھے اور وہ دن اور رات ميں کوئی تميز نہيں رکھتے تھے۔ جب اللہ نے چاہا کہ انسان کو اس زمين پر بھيجا جائے اس وقت جنات پر يہ حکم نازل کيا کہ وہ رات تک محدود ہو جائيں اور آخر کار جنات کو رات تک محدود کر ديا گيا۔ اس يہ پرندہ (مرغ) آسمانوں ميں عقاب کی طرح اڑا کرتا تھا۔ اللہ پاک نے اس پرندے کو چنا اور اس کے اڑنے کی طاقت کو کم کر کے اس کی آواز کو مزيد بلند کر ديا۔ تاکہ اس کی آواز دور دور تک سنی جا سکے اور مرغ کو يہ ذمہ داری دی کہ يہ زمين پر رہے اور جب جب رات اختتام کو جائے اور صبح قريب آجائے تو مرغ اپنی آواز سے يہ حکم نافذ کرے کہ اب جنات کا وقت ختم ہوچکا ہے اور انسان کا وقت شروع ہونے جارہا ہے۔
اور اللہ پاک نے اس پرندے کی آنکھوں ميں اتنی طاقت رکھی ہے کہ يہ فرشتوں اور جنات کو ديکھ سکے۔ جب جب کسی جن کو يہ ديکھتا ہے تو کہتا ہے جا يہاں انسان رہتے ہيں۔ اس کے بعد ايک بار پھر حضرت علیؓ اس شخص سے مخاطب ہوئے اور کہا: اے انسان ياد رکھنا جب کسی انسان پر جنات کا سايہ ہو تو اس انسان کے قريب کر کے اس پرندے کی آواز سنايا کرو اس پرندے کی آواز ميں اللہ نے اتنی طاقت رکھی ہے کہ جب جنات اس کو سنتے ہيں تو وہ لرزنے لگتے ہيں تڑپنے لگتے ہيں۔
يہ وہ دليليں ہيں جن ميں کسی شک کی گنجائش باقی نہيں۔يہی وجہ کہ بزرگ اس پرندے کو گھر ميں پالنے کی تلقين کرتے دکھائی ديتے ہيں اس پرندے کو يہ مقام ديا گيا ہے کہ ايک طرف تو يہ غذائی ضرويات کو پورا کرنے کا اہم ذريعہ ہے تو دوسری طرف آسيب سے بچاؤ کا سستا علاج بھی۔
اس حوالے سے ايک حديث مبارکہ بھی ہے۔ حضورپاکﷺ نے ارشاد فرمايا: جب مرغ کی آواز سنو تو اللہ پاک سے فضل کا سوال کرو کيونکہ مرغ فرشتے کو ديکھ کر اذان ديتا ہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو شيطان سے اللہ کی پناہ مانگو کيونکہ گدھا شيطان کو ديکھ کر آواز نکالتا ہے
ايک اور مقام پر رسولﷺ نے فرمايا : سفيد مرغ ميرا دوست ہے اس کو برا بھلا مت کہو اس کا دشون ميرا دشمن ہے جہاں تک اس کی آواز پہنچتی ہے يہ جنات کو دفع کرتا ہے تمام حوالہ جات سے مرغ کی اہميت کا اندازہ ہوا ہوگا اور آخر ميں ايک بہت اہم بات جو لوگ لڑائی کی غرض سے مرغ کو پالتے ہيں انہيں اس بات کو دھيان ميں رکھنا چاہيے کہ اللہ کے حبيبﷺ نے اس پرندے کے بارے ميں کيا ارشاد فرمايا ہے اس پرندے کو اذيت دينا بھی ايک جرم اور بہت بڑا گناہ ہے
https://web.facebook.com/KhanZaadiiBlogs/videos/366023267398072/
