خصوصی عدالت نے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی ہے۔ اسلام آباد میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی ۔ پرسیکیوٹر علی ضیا با جوہ عدالت میں پیش ہوئے اور حکومت کی طرف سے پرویز مشرف کے خلاف فرد جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کی گئی جبکہ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے پرویز مشرف کو سزائے موت کی سزا سنائی ہے۔ اس عدالتی فيصلے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے جنہوں نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے “کہ جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے” ” جئے بھٹو “۔ تو یعنی وہ عدالت کے اس فیصلے سے بہت خوش ہیں واضح رہے کہ بلاول بھٹو نے پرویز مشرف پر يہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے ان کی والدہ بے نظیر بھٹو کا قتل کیا ہے۔ جبکہ سینئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ پرویزمشرف کا يہ حق ہے کہ وہ اس فيصلے کے خلاف اپيل میں جا سکيں۔تاہم عدالتی تاریخ کا يہ اہم ترین فیصلہ ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کچھ عرصے پہلے کہا تھا کہ ایک ڈکٹیٹر کے خلاف فیصلہ آنے والا ہے اور یہ بات بہت اہم ہے کہ ان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی آ گیا ہے۔انہوں نے جو قوم سے وعدہ کیاتھا اسے پورا کر دياہے۔ حامد مير نے کہا ہے کہ اس فيصلے کا تعلق ايک فرد کے ساتھ نہيں۔کہ ایک شخص نے جس نے دو دفعہ آئین توڑا اسے سزائے موت دے دی گئی ہے ہم کسی کو سزائے موت دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ سزائے موت دی جائے لیکن اس کيس کے اثرات کی بہت اہمیت ہے اب اس عدالتی فيصلے نے پاکستان ميں فوجی مداخلت کا خاتمہ کر ديا ہے انہوں نے کہا کہ اگر اب کوئی جنرل آئين توڑے گا تو اس کے ساتھ بھی وہی ہوگا۔ جو پرويز مشرف کے ساتھ ہوا ہے۔ ليکن صرف حکومت توڑنا اور حکومت ميں مداخلت کرنا آئين توڑنے کے زمرے ميں نہيں آنا چاہيے۔ اور صرف يہی غداری نہيں بلکہ غداری تو وہ بھی ہے جو ملک کا پيسہ لوٹ کر بيرونی ملک بھجوايا گيا۔ اگر غدار کی سزا سزائے موت ہے تو نوازشريف اور زرداری وغيرہ سب کو سزائے موت دينی چاہيے۔ قانوں سب کے ليے برابر ہونا چاہيے۔ اللہ پاک عدالت کو انصاف کرنے کی توفيق دے۔