الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کا مطالعہ کرتے ہوئے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو دیکھتے ہوئے کرتے ہوئے ہمیں کچھ احساس ہوا کہ مودی کے ہونے والے جلسے میں جو ٹرمپ نے شرکت کی ہے اس سے کافی پاکستانی مایوس نظر آرہے ہیں اور بعض لوگ تو یہ فیصلہ سنا رہے ہیں کہ پاکستان عالمی سفارتی محاذ پر شکست کھا چکا ہے
اس مایوسی کے پیچھے بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ اور انہی وجوہات کو آپ کے سامنے کھل کر رکھنا ہے۔ اس کے ساتھ آپ کو یہ بتانا ہے کہ اب پاکستان کا اگلا قدم کیا ہونے جا رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اس وقت اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ میں ہیں۔ تو مووی کے 22 ستمبر کو ہونے والے جلسے میں اور ٹرمپ کی جلسے میں شرکت کے بعد اب پاکستان اپنے جلسے کے ذریعے کیسا جواب دینے جا رہا ہے ۔
سب سے پہلے اس پوائنٹ پر بات کرتے ہیں کہ پاکستانی مایوس کیوں نظر آرہے ہیں۔ اب جو مودی کا جلسہ ہوا ہے اور جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے وہاں پر آکر کھڑا ہوا ہے۔ اور محبت کی پینگیں بڑھائی ہیں۔ اور جس طرح مودی نے ٹرمپ کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پا کستان پر الزمات کی بارش کی ہے۔تو اسسے انڈیئن میڈیا کا تو بنتا ہے کے اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں۔ کہ پاکستان کو انڈیا نے سفارتی محاذ پر شکست دے دی ہے۔ ٹرمپ کا مودی کے جلسے میں آنا اس بات اور اس موئقف کی تائید کرتا ہے کہ امریکہ ہر لحاظ سے انڈیا کے ساتھ کھڑا ہے ۔اب دشمن کی طرف سے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے لیکن یہاں پر بے حد ضروری ہے اندرونی سطح پر ہمارے اندر جو دشمن موجود ہے یا دشمن کے ایجنٹ جو موجود ہیں ۔ان کو ضرور پہچانا جائے ۔
اس کی چند مثالیں ہم آپ کو پاکستانی پرنٹ میڈیا سے دیں گے کہ کس طرح اس خبر کو ٹواسٹ کر کے الفاظ کا ایسا چناؤ کیا جاتا ہے کہ باقاعدہ یوں لگتا ہے کے انڈین ایجنڈے کو آگے بڑھایا جارہا ہے ۔اور یہ بات جاننے کے بعد آپ کو پوری طرح سمجھ میں آجائے گا کہ پاکستانی عوام مایوس کیوں نظر آ رہی ہے۔ مودی کا جلسہ ہوا تو آج صبح کے اخبارات کی ہیڈلائن ذرا ملاحظہ کیجئے کے اخبارات کی اکثریت نے اس بات کو فوکس کیا کہ جب مودی ٹرمپ کے ساتھ کھڑا اندر ہال میں پاکستان پر الزامات لگا رہا تھا تو عین اسی وقت اس ہال کے باہر موجود مظاہرین مودی کا اصل چہرہ دنیا کو دکھا رہے تھے۔
اسے قاتل مودی کے نام سے پکارا جارہا تھا کشمیر پر ہونے والے مظالم کے خلاف لوگ بول رہے تھے۔ لیکن ان اخبارات میں سے ایک میڈیا گروپ ایسا ہے کہ جس نے بہت بڑی ہیڈ لائن لگائیں کہ انڈیا اور امریکہ کا رشتہ اور بھی زیادہ مضبوط ہو چکا ہے اس میڈیا ہاؤس کا نام ہے جنگ گروپ ۔ یہ وہ گروپ ہے جو صرف اور صرف بغض عمران میں قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے تک باز نہیں آرہا ۔ اور ڈھکے چھپے الفاظ کے ذریعے پوری ہیڈلائنز کو ترتیب دے کر لوگوں میں مایوسی پھیلائی جا رہی ہے۔
اب یہ تو پرنٹ میڈیا ہے۔الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی ایسے لنڈے کے بے شمار دانشور آپ کو ملیں گے۔ جو اس طرح کا فر یضہ سرانجام دے رہے ہیں ۔چنانچہ پاکستانی لوگ جو مودی کے جلسے میں ٹرمپ کے آ جانے سے مایوس نظر آرہے ہیں اس بات پر یقین کر رہے ہیں کہ شا ید پاکستان کو سفارتی محاذ پر شکست ہوئی ہے۔ تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کو چونکہ فیڈ کیا جارہا ہے۔ اور عوام کی ا کثریت جو کے سادہ لوح ہے۔چنانچہ اس ایجنڈے کو اس پراپیگنڈے کو سمجھ نہیں پاتے۔
دوسرے پوائنٹ پر آتے ہیں کہ پاکستان اب جواب کیا دینے جا رہا ہے ۔لیکن اس سے پہلے یہ جان لیجئے کیا مودی کا جلسہ اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ امریکی صدر اس میں شرکت کر رہا ہے ۔؟ 
23 ستمبر کے روز پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ میٹنگ کی ۔اس میٹنگ میں ظاہر ہے سب سے بڑا ایجنڈا کشمیر کا ہونا تھا۔ عین اس میٹنگ سے ایک روز پہلے اس جلسے کا ہونا اور اس میں ٹرمپ کا جانا اور دونوں کا مل کر انڈائریکٹلی پاکستان کو موردِالزام ٹھرانا حیران اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ محض پاکستان کو انڈر پریشر لانے کی کوشش تھی۔
اورمودی اور ٹرمپ اچھی بارگیننگ پوزیشن حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پاکستانیوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا کپتان انڈر پریشر زیادہ بہتر کھیلتا ہے ۔ اب ٹرمپ سے میٹنگ کے بعد عمران خان نے بھی پاکستانی کمیونٹی سے ایک جلسے میں خطاب کرنا ہے۔ اور ان کو یہ تجاویزدی جا رہی ہیں کہ جس طرح انڈین پرائم منسٹر مودی نے ٹرمپ کو انوائیٹ کیا ہے۔ تو آپ دوسری بڑی عالمی طاقتوں جیسے چائنہ وغیرہ کے سربراہان کو اپنے جلسے میں انوائیٹ کیجیے ۔
اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ کہا جارہا ہے کہ آپ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کو بھی مسلمانوں کے نمائندہ ملک کے طور پر اپنے جلسے میں انوائیٹ کر سکتے ہیں۔
لیکن زیادہ توقع یہی ہے عمران خان سولو شو آف پاور کی طرف جانے والے ہیں ۔ وہ دنیا کو یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں ان کی اس قدر اہمیت ضرور ہے کہ بغیر کسی لوکل سپورٹ کے لئے اگر کسی کو بلاتے ہیں جلسے میں تو ان کے جلسے میں پاکستانی اور کشمیری دوڑے آتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں کشمیر پر بات کریں تو انہیں پاکستانیوں اور کشمیریوں کے نمائندے کے طور پر لیا جائے ۔اور ان شاء اللہ العزیز آپ دیکھں گے کہ جو پاکستان کا جلسہ ہوگا وہ بھی تعداد میں کم نہیں ہوگا کیوں کہ امریکا پورا سے نہ صرف پاکستانی و کشمیری یہ جلسے میں شرکت کرنے والے ہیں ۔بلکہ ا نڈیا سے تعلق رکھنے والے سکھ جو خا لستان کے حامی ہیں۔ وہ بھی عمران خان کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلائیں گے ۔
رہی بات ان دوستوں کی کہ جو مودی کے جلسے سے ذرا مایوس نظر آرہے ہیں ان کو کہہ دیں کہ آپ ہرگز کسی پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں ۔ عالمی سیاست اسی طرح کام کرتی ہے۔ ہر ملک اپنے حریف ملک کو پریشر میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ تاکہ اس دوران بہترین ڈیل کریک کرسکے۔ 
اور بڑا لیڈر وہ ہوتا ہے جو اس پریشر کو ہینڈل کر کے حالات کے دھارے کو اپنی فیور میں موٹر سکے۔ اور عمران خان سے بہتر طور کی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ جب بھی بات کرے گا جو بھی بات کرے گا ۔وہ قوم کے حق ہی میں بات کرے گا۔

ابھی ہم سب اللہ کی بارگاہ میں یہی دعا کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سامنے اور امریکہ میں پاکستانی اور کشمیریوں کو اللہ سرخرو کرے ۔آمین