دوزخ ایسی جگہ کا نام ہے کس میں کافروں اور بدکاروں کو پھینک دیا جائے گا
جس میں روز محشر میں ہونے والی حساب کے بعد پھینک دیا جائے گا۔کافر اس میں ہمیشہ قید رکھے جائیں گے
اس میں تیز بھڑکتی ہوئی آگ ہےاور روشنی کا نام تک نہیں ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
سورۃ الاحزاب آیت نمبر 64
”بے شک اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہےاور ان کے لئے دوزخ کی دہکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہےاور جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہاں نہ دوست آئیں گے نہ مددگارجو ان کو عذاب سے بچا سکے”
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے
اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم نہ مانےتو بیشک ان کے لئے جہنم کی آگ ہےجس میں ہمیشہ رہیں گے”
قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے جس میں حتمی طور پر طے ہو کے جہنم کہاں ہوگی
پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنت اور جہنم موجود ہیں یا ابھی تیار ہو رہی ہیں اور اگر ان کا وجود ہے تو وہ اس وقت کہاں ہیں
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ان کے وجود کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا
اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جہنم کے بارے میں کیا ارشاد ہے
یہ ساری معلومات آج آپ کو اس آرٹیکل میں فراہم کریں گے
ایک شخص حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آتا ہےاور ان سے عرض کرتا ہے
”امیر المومنین ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ جنت اور جہنم موجود ہیں اور اس پر ہمارا ایمان ہے ہمیں یہ بتا دیں جہنم کہاں واقع ہے اور کون سی جگہ پر ہے”
تو اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس شخص سے فرمایا
”جنت ساتوں آسمانوں پر ساتوں آسمانوں سے جدا ہے کیونکہ ساتوں آسمان قیامت کے دن فنا اور ختم ہونے والے ہیں جبکہ جنت کو فنا نہیں ہے وہ ہمیشہ رہے گی اور جنت کی چہت عرش رحمن ہے اور جہنم ساتوں زمین کے نیچے ایسی جگہ پر موجود ہےجس کا نام ”سجین” ہے اور جہنم کے دروازے اس طرح ہیں کے ایک کے اوپر ایک اور سات دروازے ہیں
ایک ایک کرکے سب دروازے پر ہو جائیں گے”
ایک حدیث ہے کہ جس سے ہم جہنم کے سائز کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہنم کتنی بڑی ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ
کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”اس دن جہنم لائی جائے گی اوراس کی 70000 باگیں ہونگی اور ہر ایک باگ کو ستر ہزار فرشتے کھینچتے ہوں گےاور فرشتے جو جہنم کو کھینچتے ہوں نگے”4 ارب 90 کروڑ ہوئے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے
اتنے میں ایک دھماکے کی آواز آئی
تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”تم جانتے ہو یہ کیا ہیں ۔؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”ایک پتھر تھا جو جہنم میں پھینکا گیا 70 سال پہلے۔اب اس کی تہہ میں جا پہنچا”
جہنم میں اتنی گہری ہے کہ اس کی چوٹی سے سطح تک پہنچنے میں ستر سال کا ٹائم لگتا ہے اور وہ بھی اس رفتار سے جس رفتار سے پتھر اوپر سے زمین پر نیچے گرتا ہے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہنم جہاں آگ ہی آگ ہوگی وہاں گرمی کا کیا عالم ہوگا
اللہ تعالی سورۃواقعہ میں فرماتے ہیں
“”اور بائیں ہاتھ والے کیا ہیں بائیں ہاتھ والے گرم پانی میں گرم ہوا میں اور گرم دھوئیں میں اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں جونا ٹھنڈا ہے نہ عزت والا ہے””’
انسان دھوپ اور گرمی سے بچنے کے لیے یہ تین چیزیں استعمال کرتا ہے ٹھنڈی ہوا ٹھنڈا پانی اور ٹھنڈا سایا
مگر جہنمیوں کو نہ ٹھنڈا پانی ملے گا نہ ٹھنڈا سایہ ملے گا اور نہ ہی کوئی ٹھنڈی جگہ بلکہ گرم کھولتا ہوا پانی گرم ہوا اور سیاہ دھوئیں کے سایوں میں رہیں گے
اب سوال یہ ہے کہ جہانوں کی اتنی بڑی ہے تو وہاں کا ایندھن کیا ہوگا؟
اللہ تعالی سورہ بقرہ میں یوں ارشاد فرماتے ہیں
‘’ اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں’’
اللہ تعالی فرماتے ہیں ”تم اور تمہارا معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں تم سب اس میں وارد ہو گے”
جہنم میں درجات بھی موجود ہیں
جس طرح دنیا کی سزا گاہوں میں درجات موجود ہیں
کی کس نے کتنا جرم کیا اور اس کے مطابق اس کو کتنی سزا دی جائے گی
جہنم کے سات درجات ہیں
درجات جتنے نیچے ہوتے جائیں گے جہاں وہ اپنی ہی سخت ہوتی جائے گی
جنت میں درجات جیسے جیسے اونچے ہوتے جائیں گے
ویسے ویسے نعمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا جہنم کے سب سے نیچے درجے میں سب سے زیادہ سخت عذاب ہوگا اور جہنم کے سب سے نچلے درجے منافقین ہوں گے اسی طرح جہاں غم کے سب سے اوپر والے حصے میں سب سے کم عذاب ہوگا حضرت سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بعضوں کو آگ ٹخنوں تک پکڑے گی، بعضوں کو گھٹنوں تک، بعضوں کو کمر بند تک،اور بعضوں کو پسلی تک”
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے تھے قیامت کے دن سب سے ہلکے عذاب والا شخص وہ ہوگا جس کے دونوں پاؤں کے نیچے دو انگارے رکھے جائیں گے جس کی وجہ سے اس کا دماغ اس طرح کھولے گا جس طرح ہنڈیا جوش کھاتی ہیں ”
اس حدیث سے ہم یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ یہ کتنا سنگین عذاب ہوگا حالانکہ یہی سب سے ہلکا عذاب ہے جہنمی لوگ اللہ تعالی سے دعا کریں گے اے اللہ ایک دن کے لیے عذاب ہلکا کر دیجئے
اللہ تعالی فرماتے ہیں ”تمام جہنمی جہنم کے داروغہ سے مل کر کہیں گے کہ تم ہی اپنے اللہ سے دعا کرو کہ وہ کسی دن تو عذاب میں کمی کر دے
جہنمیوں کو جواب ملے گا کہ ہم عذاب کو بڑھاتے ہی جائیں گے
اللہ تعالی فرماتے ہیں اب تو مزے اٹھاؤ ہم عذاب بھی بڑھاتے رہیں گے اور اس سے بدترین عذاب تمہیں زیادتی کے ساتھ ہوتے رہیں گے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ‘جہنمیوں کے لیے اس سے زیادہ سخت اور مایوس کن آیت اور کوئی نہیں کے ان کے عذاب ہر وقت بڑھتے ہی رہیں گے
انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ‘اللہ تعالی اس شخص سے فرمائیں گے جس کو سب سے ہلکا عذاب ہوگا اگر تمہارے پاس دنیا ہوتی اور جو کچھ اس میں ہے تو کیا اس کو دے کر اپنے آپ کو عذاب سے چھڑا لیتا ۔وہ کہے گا ہاں ۔ اللہ کہیں گے میں نے تو اس سے بھی سہل بات تم سے چاہی تھی۔ اور تو اس وقت آدم کی پیٹھ میں تھا کے میرے ساتھ شرک نہ کرنا میں تجھ کو جہنم میں نہ لے جاؤں گا مگر تو نے نہ مانا۔اور شرک کیا ۔
جب بھی جہنم کا ذکر ہوگا تو ایک مسلمان پوری کوشش کرے گا کہ وہ اس کی آگ سے بچ جائے ۔وہ ہر اس کام کو چھوڑنے کی کوشش کرے گا جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کرنے سے منع فرمایا ہے ۔اس وقت یہ حال ہے کہ ہم جنت اور جہنم کی معلومات سے کوسوں دور ہیں۔جس کا ایک سبب یہ ہے کہ ہم دنیا میں مصروف ہوگئے ہیں ۔بیوی بچے جائیداد پیسے سے ہمیں اتنی محبت ہوگئی ہے کہ ہمیں وقت ہی نہیں ملتا جنت اور جہنم کے بارے میں پڑھنے کے لئے۔ہمیں سوائے جنت اور جہنم کے نام کے علاوہ کچھ بھی نہیں معلوم ۔یہ تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ اللہ تعالی ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے اور ہمیں وہ اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔