بھارت کا نام سنے تو سب سے پہلا خیال تاج محل کا آتا ہے جسے شاہجہاں نے اپنی بیگم ممتاز کی محبت ميں بنوايا تھا۔ اس مینار کامحراب اور مخروطی گنبد اپنے دیکھنے والوں کو سحرانگیز کردیتے ہیں ایک ایسا جادو بھرا منظر کہ سیاح دنیا ہی بھول جائے یہ عجوبہ اپنی بناوٹ میں کہیں بھی جھوٹ بولتا نظر نہیں آتا ۔
تاج محل جسے محلوں کا تاج کہا جاتا ہے اور تاج محل کو بنانے میں 22 برس لگے۔يہ شاندار عجوبہ اسلامی ایرانی اور ہندوستانی فن تعمیر کا جیتا جاگتا ثبوت ہے
دنيا کے سات عجوبوں ميں سے تاج محل بھی ایک عجوبہ ہے ۔ايک اندازے کے مطابق سالانہ ايک ملین سياح يہاں آتے ہيں ۔ یونیسکو نے تاج محل کو دنیا کا سب سے امیر ورثہ قرار دیا ۔تتاج محل کے حوالے سے جدید تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ دریائے جمنا میں تیرتا ہوا یہ ایک پُراسرار شاہکار تھا جو آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے آج بھی تاج محل میں ایک شاندار مسجد ہے جس میں لوگ جمع کی نماز ادا کرنے کے لئے دوردراز سے آتے ہیں اور یہاں تک پہنچنے میں دریائے جمنا میں خصوصی کشتیاں بھی استعمال کرتے ہیں نظرکرم نےتاج محل کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے۔
چند حقائق پر بات کریں گے جو محبت کی نشانی ہے تاج محل سے منسوب ہیں تاج محل کے چار مینار ہیں چاروں کے چاروں محل کی بنیاد سے اٹھائے گئے ہیں اور ایسا زلزلے کے ممکنہ نقصانات سے بچنے کے لیے کیا گیا یہ راز کی بات ہے مصروفیات چاروں طرف سے میناروں کو ایک ہی زندگی سے دیکھ سکتے ہیں اس وقت کے ماہر تعمیرات نے اس کی تعمیر میں فیثاغورث کا فارمولا اپنایا اور توازن کے تمام ریاضیاتی فارمولوں سے استفادہ کیا یا اس کے ساتھ بہت سی فرضی کہانیاں جڑی ہوئی ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاہجہان در جملہ پر ایک سیاہ تاج محل بھی بنانا چاہتے تھے اور جب انہوں نے اس خواہش کا اظہار اپنے ماہرین تعمیرات سے کیا توڑتے بال مکین اس منصوبے کو آڑے ہاتھوں لیا اور اپنے باپ کو قید کرکے ہندوستانی عوام کے پیسے کو مزاروں اور قبروں پر خرچ کرنے سے بچایا ۔
ایک اور کہانی ہمیشہ گردش میں رہی ہے کہ شاہ جہاں نے ان تمام معماروں کے ہاتھ قلم کروا دیے تھے جنہوں نے یہ شاہکار بنایا ماہرین کے مطابق تاج محل کو بنانے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سارا دن اس کے رنگ بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے رنگوں کی خواتین کے موڈ کی عکاسی کرتی ہے خاص طور پر ملکہ ممتاز محل کے مزاج کی ۔
صبح کے وقت اس محل کو گلابی شیٹ میں دیکھا جاسکتا ہے جبکہ شام کو سفید اور چاندنی رات کو سنہری دکھائی دیتا ہے اس شاہکار کی تعمیر پر 320 ملین بھارتی روپے خرچ ہوئے تھے استاد احمد لاہوری کی سربراہی میں 22 ہزار مزدوروں نے دن رات اس کی تعمیر میں حصہ ليا۔