عالمی سطح پر رسوائی کے بعد اب اپنے ملک میں بھی نریندر مودی کی ذلت و رسوائی کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاستدان کالم نگار سول سوسائٹی اور تجزیا کار بھی کشمیر کی صورتحال پر مودی کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں ۔بھارتی تجزیا کار اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے کشمیر کی صورتحال پر تجزیا کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں بھارت کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔سابق چیف جسٹس مرکنڈے کارجو نے کشمیر سے متعلق کیا حولناک انکشافات کیے۔یہ بتانے سے پہلے آپ کو بتاتے ہیں کہ صرف بھارت ہی نہیں عالمی میڈیا بھی نریندر مودی پر تنقید کر رہا ہے ۔
امریکی جریدے نیو یارک ٹائم جریدے نے صفحہ اول پر مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر خصوصی رپورٹ شائع کی ۔ جس میں بتایا گیا کہ کشمیریوں کی تکلیف بڑھ رہی ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاون بطور سزا کیا جارہا ہے۔ متنازہ علاقے تقریباً دو ماہ سے لاک ڈاون ہیں۔اور زندگی مکمل طور پر مفلوج ہے۔ بھارتی فوجی عوام کو گھروں میں رہنے کا حکم دیتے ہیں۔ اور باہر آنے کی صورت میں گولی مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے ۔کشمیری عوام نہ اسپتال جا سکتے ہیں ۔
اور نہ کمیونیکیشن لاک آوٹ وجہ سے اپنے پیاروں سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔
امریکی اخبار میں لکھا ہے کہ بھارتی حکومت جانتی ہے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ غیر مقبول ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاون بطور سزا کیا جارہا ہے۔ اور اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔
بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے کشمیر کے حوالے سے کیا انکشافات کیے۔؟اور مودی کو کیسے آئینہ دکھایا؟
اپنے آ رٹیکل میں سابق مرکنڈے نے انکشافات کیے ہیں۔ کہ مقبوضہ کشمیر بہت جلد بھات کے لیے ویسا ہی علاقہ بن جائے گا جیسا ویت نام فرانس اور امریکہ کے لیے اور افغانستان روس کے لیے اور سپین نپولین کے لیےتھا۔
کشمیری جزبہ آزادی کے حوالے سے مرکنڈے کارجو کا کہنا تھا کے فوجی دوسری فوج سے لڑ سکتی ہے۔ لیکن کوئی بھی فوج عوام سے نہیں لڑ سکتی۔ شیر ایک ہرن کو تو مار سکتا ہے لیکن شیر مچھروں کے غول کا شکار نہیں کرسکتا ۔کشمیر میں بھارت کی پانچ لاکھ سے زائد فوج موجود ہے لیکن وہ ایسے دشمن سے کیسے لڑ سکتے ہیں جونظر بھی نہیں آتا۔
ایسا دشمن سائے کی طرح سفر کرتا ہے۔ وہ کہیں بھی نہیں ہیے۔اور ہر جگہ ہے۔ مرکنڈے کارجور کے مطابق بھاتی حکومت نے کشمیر میں ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر گوریلہ جنگ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ گوریلا جنگ کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکت کا بھی خطرہ ہوتا ہے ۔جس کی وجہ سے عسکریت پسندی کو مزید فروغ ملنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
جسٹس مرکنڈے کے مطابق یہ سب کب تک چلے گا۔کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ بھارت ایک مشکل صورتحال میں پھنس چکا ہے۔ علمی جریدے اور تجزیہ کار کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے انہی خدشات کا اظہار کررہے ہیں ۔جو وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تقریر میں کیے۔
اب عالمی دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان خدشات کو سنجیدہ لیتے ہوے کشمیر کی روز بگڑتی صورتحال کو بہتر بنانے میں کردار ادا کریں گے۔ اگر وقت پر فیصلہ نہ کیا گیا تو نقصان صرف پاکستان یا بھارت کا نہیں نہیں ہوگا ۔آگ کی تپش پوری دنیا کو محسوس ہوگی۔